سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نفسياتى مريض خاوند كے ساتھ بيوى كيسے معاملات سرانجام دے اور كيا ايسے خاوند كو حقوق حاصل ہيں ؟

98829

تاریخ اشاعت : 20-03-2013

مشاہدات : 6947

سوال

ايك عورت اپنے خاوند كے بارہ ميں دريافت كرتى ہے كہ اس كا خاوند نفسياتى مريض ہے، اور عقل ميں بھى خلل پايا جاتا ہے، گھريلو امور ميں تو كوئى دخل اندازى نہيں كرتا ليكن بيوى پر ہميشہ گناہ كا الزام لگاتا ہے، حالانكہ بيوى اس سے كوسوں دور ہے، يہ شخص دس افراد كا باپ ہے، اس كى اولاد نے باپ كى معاونت كے بغير ہى شادياں كى ہيں، جس كى بنا پر بيوى كے جذبات الٹ گئے اور وہ خاوند سے بات كرنے كى بھى طاقت نہيں ركھتى، برائے مہربانى ہميں بتائيں كہ اس سلسلہ شرعى حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كے خاوند كو جلد از جلد شفا نصيب فرمائے، اور آپ كو صبر كرنے پر اجرعظيم عطا فرمائے، اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے جس مصيبت ميں آپ كا ابتلاء ہے اگر اس پر صبر و تحمل كرتے ہوئے اجروثواب كى نيت كريں گى تو آپ كو اجروثواب حاصل ہوگا.

صھيب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مومن كا معاملہ بڑا ہى عجيب ہے، اس كا سارا معاملہ ہى خيرو بھلائى پر مشتمل ہے، اور يہ مومن كے علاوہ كسى اور كو حاصل نہيں، اگر اسے خوشى و آسانى حاصل ہو تو شكر كرتا ہے يہ اس كے ليے بہتر ہے، اور اگر اسے كوئى تكليف و تنگى آتى ہے تو اس پر صبر كرتا ہے تو يہ اس كے ليے بہتر ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2999 ) ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مسلمان كو جو بھى تكليف اور تنگى اور غم و پريشانى اور اذيت و غم پہنچتى ہے حتى كہ اسے جو كانٹا لگتا ہے اس سے اللہ تعالى اس كے گناہ معاف كر ديتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5318 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2573 ).

دوم:

آپ كے خاوند كا نفسياتى مريض ہونے كى حالت ميں يا تو وہ اپنے افعال و اعمال و تصرفات كا ادراك كرتا ہوگا يا پھر اسے ادراك نہيں ہوگا، اگر وہ ادراك ركھتا ہو تو اس كے قول و افعال كا مؤاخذہ ہوگا، اور اس صورت ميں اس كے ليے آپ پر بہتان لگانا حلال نہيں، اور نہ ہى وہ اپنى اولاد كى تربيت سے ہاتھ اٹھا سكتا ہے، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس پر جو واجبات ركھے ہيں ان كى ادائيگى كرنا ہوگى اور وہ اطاعت والے كام كريگا، اور جن امور سے اللہ سبحانہ و تعالى نے روكا ہے اس سے اجتناب كرنا ہوگا، اس حالت ميں آپ پر اس كے حقوق زوجيت ادا كرنا واجب ہونگے، اور آپ كے ليے اس ميں سستى و كوتاہى كرنا حلال نہيں ہوگا.

اور اگر اس كا نفسياتى مرض ايسا ہے كہ وہ اپنے افعال و تصرفات كا ادراك ہى نہيں كر سكتا تو وہ مكلف نہيں ہوگا اس كے اقوال و افعال كا مؤاخذہ نہيں كيا جائيگا، ليكن اگر كسى دوسرے كے حقوق سے متعلق ہو تو پھر مؤاخذہ ہوگا لہذا صاحب حق آپ كے خاوند كے مال سے اپنا حق وصول كريگا، يا پھر اس كے اولياء كے مال سے، مثلا اگر وہ كسى دوسرے شخص كو قتل كر دے يا اس كى گاڑى تباہ كر دے يا اس طرح كا كوئى عمل كرے تو اس كے مال سے تلافى كى جائيگى.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تين قسم كے اشخاص مرفوع القلم ہيں: سويا ہوا شخص حتى كہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ بالغ ہو جائے، اور پاگل و مجنون شخص كے عقلمند ہو جانے تك "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4398 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3432 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2041 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جو بچہ ابھى بالغ نہ ہوا ہو يا پھر بالغ تو ہو چكا ہو ليكن امتياز نہ كر سكتا ہو يا پھر وہ امتياز كر سكتا تھا اور بعد ميں تميز نہ كر سكتا ہو تو ايسے اشخاص مخاطب نہيں اور ان كے مال ميں كوئى معاملہ نافذ نہيں ہوگا؛ كيونكہ ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بيان كر چكے ہيں:

" تين قسم كے افراد مرفوع القلم ہيں: بچہ بالغ ہونے تك اور پاگل عقلمند ہونے تك اور سويا ہوا شخص بيدار ہونے تك "

ديكھيں: المحلى ( 7 / 200 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عقلمند كى الٹ پاگل و مجنون ہے جسے عقل نہ ہو، اور اس ميں ہى زيادہ عمر كا وہ شخص اور عورت شامل ہوگا جو اس عمر تك پہنچ جائے جس ميں وہ پہچان و تميز نہ كر سكے جسے ہمارے ہاں مال خوليا كا شكار كہا جاتا ہے تو ايسے شخص پر عقل نہ ہونے كى بنا پر نماز فرض نہيں ہوگى "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 12 ) پہلا سوال.

ايسے شخص كے تصرفات اور اس كے اثرات پر اہل علم كى كلام كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 73412 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

آپ پر گناہ كا الزام لگانے كى بابت عرض يہ ہے كہ اگر تو آپ گناہ سے مراد " زنا " لے رہى ہيں تو دوسرى حالت ميں آپ كے خاوند كى جانب سے اسے بہتان اور قذف شمار نہيں كيا جائيگا، كيونكہ اس كے ليے سب سے اہم شرط عاقل ہونا مفقود ہے، اور اس جيسے شخص سے لعان بھى ممكن نہيں.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ قاذف " يعنى زنا كا بہتان لگانے والے " كے ليے عاقل و بالغ اور اختيار كى شرط ضرورى ہے، چاہے وہ عورت ہو يا مرد آزاد ہو يا غلام مسلمان ہو يا غير مسلم " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 33 / 11 ) .

خلاصہ يہ ہوا كہ:

يا تو آپ اس كى بيمارى اور عقل ميں خلل ہونے كى بنا پر اس كے تصرفات اور افعال پر صبر و تحمل سے كام ليں، يا پھر اپنا معاملہ شرعى عدالت ميں لے جائيں تا كہ قاضى آپ كے ليے اسے خاوند رہنے يا فسخ نكاح كا حكم دے سكے.

اور اگر وہ اپنے تصرفات كا ادراك ركھتا ہے تو پھر يا آپ اس كى جانب سے جو كچھ ہو رہا ہے اس پر صبر و تحمل سے كام ليں، اور يا پھر اس سے طلاق طلب كر ليں، اور اگر طلاق دينے سے انكار كرے تو آپ اپنا معاملہ شرعى عدالت ميں لے جائيں تا كہ شرعى عدالت آپ ميں عليحدگى كا فيصلہ كر سكے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب