سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بچے كا عورت كى امامت اور عورت كا بچے كى امامت كروانا

9933

تاریخ اشاعت : 25-11-2006

مشاہدات : 8212

سوال

كيا ميرا سات برس كا بچہ نماز ميں ميرى امامت كروا سكتا ہے؟
اور كيا والدہ ہونے كى بنا پر ميں اس كى امامت كروا سكتى ہوں ؟
ملاحظہ: بچے نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے ديكھ كر نماز سيكھى ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

وہ بچہ جو نماز كو سمجھتا ہو اس كى امامت صحيح ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" قوم كى امامت وہ كرائے جو ان ميں سے سب سے زيادہ قرآن مجيد كو ياد كرنے والا ہو "

صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاۃ حديث نمبر ( 1078 ).

اور اس ليے بھى كہ صحيح بخارى ميں عمرو بن سلمہ الجرمى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ:

ميرے والد صاحب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ہو كر آئے تو كہنے لگے: انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے كہ:

" جب نماز كا وقت ہو جائے تو تم ميں سے جسے سب سے زيادہ قرآن مجيد ياد ہو وہ تمہارى امامت كروائے.

عمرو بيان كرتے ہيں كہ: انہوں نے ديكھا تو مجھ سے زيادہ كسى كو بھى قرآن مجيد ياد نہ تھا، چنانچہ انہوں نے مجھے امامت كے ليے آگے كر ديا، ميرى عمر اس وقت چھ يا سات برس تھى "

صحيح بخارى كتاب المغازى حديث نمبر ( 3963 ).

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 389 - 390 )

حديث كى وجہ الدلالت:

( ان صحابہ كرام نے عمرو بن سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كو امامت كے ليے آگے كيا تو ان كى عمر چھ يا سات برس تھى )

چنانچہ يہ اس بات كى دليل ہے كہ تميز كرنے والے بچے كے ليے امامت كروانى جائز ہے، اگر يہ جائز نہ ہوتى تو اس كے انكار ميں وحى نازل ہو جاتى.

ديكھيں: احكام الامامۃ والائتمام فى الصلاۃ تاليف عبد المحسن المنيف

چنانچہ اگر آپ كا بيٹا نماز كى شروط اور اركان اور واجبات كو پورا كرتا ہے تو اس كے ليے آپ كى امامت كرانے ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن عورت بچے كى امامت نہيں كروا سكتى، كيونكہ وہ مرد كے حكم ميں ہے، بلكہ عورت كے ليے عورتوں كى امامت كرانا جائز ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام ورقہ بنت عبد اللہ بن نوفل رضى اللہ تعالى عنہا كو اپنے گھر كى عورتوں كى امامت كروانے كا حكم ديا تھا"

سنن ابو داود كتاب الصلاۃ باب امامۃ النساء حديث نمبر ( 500 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 553 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد