سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

گمراہ قسم كے داعى حضرات كى تقارير سننے سے بيوى كو روكنا

99469

تاریخ اشاعت : 19-04-2013

مشاہدات : 4450

سوال

ميں نے ايك دينى التزام كرنے والى لڑكى سے رشتہ طے كيا، جن دينى امور كا وہ علم ركھتى ہے وہ اس پر عمل كرتى ہے، ليكن مشكل يہ ہے كہ كئى امور سے جاہل ہے، اور جن علماء كرام يا داعى حضرات كى تقارير سننا چاہتى ہے وہ گمراہ قسم كے لوگ ہيں، يا پھر فضائى چينل ميں آنے والے ہيں، ان كے بارہ ميں اكثر علماء كرام نے كلام كرتے ہوئے ان كو نہ سننے كا كہا ہے.
اور ان ميں كچھ علماء بھى ہيں، ليكن وہ گورنمنٹ كى پسند كے فتوى جارى كرتے ہيں، بعض اوقات وہ كہتے ہيں: عورت قاضى اور امير بن سكتى ہے، اور بعض اوقات اہل سنت پر حملہ آور ہوتے ہيں، تو ميں بيوى سے كہتا ہوں ميں اسے اس بدعتى شخص يا غير عالم دين كى تقارير سننے كى اجازت نہيں دے سكتا، كيونكہ اللہ كے سامنے جوابدہ ہوں.
ليكن وہ اسے ميرى جانب سے ايك قسم كا حكم خيال كرتى ہے كہ ميں اس پر اعتماد نہيں كرتا، حالانكہ اس كے خيال كے مطابق وہ صحيح اور غلط ميں تميز كر سكتى ہے، اور جنہيں وہ سننا چاہتى ہے وہ اچھى باتيں بھى كرتے ہيں، مجھے يہ بتائيں كہ آيا ميں غلطى پر ہوں ؟
يا كہ ميں جو نگرانى كرنا چاہتا ہوں بالفعل ميرا حق اور مجھ پر واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آدمى كو اپنى بيوى كى اصلاح كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور وہ اسے حسب استطاعت اللہ تعالى كے فرائض كى ادائيگى كى ترغيب دلائے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو جہنم كى آگ سے بچا لو التحريم ( 6 ).

علامہ ابو بكر الجصاص رحمہ اللہ اس كى تفسير كرتے ہوئے لكھتے ہيں:

" يہ اس كى دليل ہے كہ ہم پر اپنى اولاد اور اہل و عيال كى تعليم دينا فرض ہے كہ انہين خير و بھلائى اور دين كے ساتھ ساتھ ان آداب كى تعليم دى جائے جس كے بغير كوئى چارہ نہيں ہے "

اور اس كى شاہد يہ حديث بھى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم سب نگران اور ذمہ دار ہو، اور ہر كوئى اپنى رعايا كا جواب دہ ہوگا "

يہ معلوم ہے كہ جس طرح حاكم اور نگران و راعى پر ضرورى ہے كہ وہ اپنى رعايا كى حفاظت كرے، اور ان كى مصلحت تلاش كرے اسى طرح ان كى تعليم و تربيت بھى كرنا ضرورى ہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: احكام القرآن ( 3 / 697 ).

اور علامہ ابن كثير رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير ميں لكھتے ہيں:

" قتادہ رحمہ اللہ كا قول ہے: انہيں وہ اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كا حكم دے، اور انہيں اللہ سبحانہ و تعالى كى معصيت و نافرمانى سے روك كر ركھے، اور ان پر اللہ سبحانہ و تعالى كے اوامر نافذ كرے، اور انہيں اللہ كے احكام ماننے كا كہے، اور اس سلسلہ ميں ان كا تعاون كرے.

لہذا جب ديكھے كہ اللہ كى معصت و نافرمان كر رہے ہيں تو انہيں ايسا كرنے سے روكے اور ڈانٹے " انتہى

اس ليے اگر اس سائل نے اس عورت سے نكاح كر ليا ہے تو وہ اس كى بيوى بن چكى ہے، اس ليے اسے اس كى تعليم و تربيت كى كوشش كرنا ہوگى، اور اسے اس كے دينى معاملات سكھانا ہونگے، اس ميں وہ اس كا ممد و معاون ثابت ہو، ليكن نرمى و پيار كے طريقہ سے، كيونكہ نرمى كے ساتھ ہى اس طرح كا مقصد پورا ہو سكتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب اللہ تعالى كسى گھر والوں كے ليے خير و بھلائى كا ارادہ كرتا ہے تو ان ميں نرمى داخل كر ديتا ہے "

اسے امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 3 / 219 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كو ہر اس كام سے روكے جو اس كے دين و دنيا كے ليے نقصان و ضرر كا باعث ہو اور گمراہ قسم كے افراد گمراہى كى دعوت ديتے ہوں تو ان كے دروس اور تقارير نہ سننے دے، ثقہ اور قابل اعتماد اہل علم نے ايسے افراد سے بچ كر رہنے كى تلقين كى ہے.

يہ اس صورت ميں ہے جب حق و باطل ميں وہ تميز نہ كر سكتى ہو، ليكن اگر وہ حق پہچانتى ہے اور ان گمراہ قسم كے افراد سے متاثر ہونے كا كوئى خدشہ نہيں تو پھر ان كے دروس اور تقارير سننے ميں كوئى حرج نہيں، تاكہ حق لے ليا جائے اور گمراہى اور غلط افكار كو رد كر كے چھوڑ ديا جائے.

يہ سب كچھ اس بدعات ميں ہوگا جن كا اہل علم نے انكار كيا ہے، اور جس سے بچنے كا كہا ہے، ليكن ان اختلافى مسائل ميں جن ميں اجتھاد جائز ہے اور اس ميں علماء كرام كے نظريات اور اقوال مختلف ہيں اس ميں اگر كوئى عامى شخص كسى ايك عالم دين كى بات دليل كے ساتھ مان كر عمل كرتا ہے تو اس پر كوئى حرج نہيں ہوگا.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

ہمارے سائل بھائى آپ كو ہر قسم كى گمراہى اور خواہشات سے اپنى بيوى كى حفاظت كرنا ہوگى، ليكن اس ميں آپ كو نرمى برتنى چاہيے، اور آپ اسے اس پر مطمئن كرنے كى كوشش كرنا ہوگى كہ باطل كو لوگ اس وقت قبول كرتے ہيں جب ان پر حق و باطل مختلط ہو كر معاملہ ميں التباس پيدا ہو جائے.

كيونكہ جب آپ كى بيوى كو يہ سمجھ آ جائيگى تو ان شاء اللہ وہ مطئمن بھى ہو جائيگى، پھر آپ ان گمراہ مبلغين كے بدلے ميں اسے صحيح اور قابل اعتماد اہل علم كے دروس اور تقارير لا كر ديں، جو اچھى كلام اور طرز عمل سے لوگوں كے دل موہ ليتے ہيں، اور الحمد للہ اس طرح كے افراد بہت پائے جاتے ہيں.

اللہ تعالى آپ اور ہميں ايسے اعمال كرنے كى توفيق سے نوازے جنہيں اللہ پسند كرتا اور جن سے راضى ہوتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب