الحمد للہ.
آپ كے پہلے سوال كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ: آپ كے پاس اس مال ميں سے جو رقم بچى ہے اسے نيكى و بھلائى كے كاموں ميں خرج كر كے نفع اٹھا سكتے ہيں، اس سوال كا نمبر ( 96614 ) ہے، اور ہم نے وہاں آپ كو ايك اور سوال كے جواب كا مطالعہ كرنے كا كہا تھا، جس ميں بيان ہوا ہے كہ اگر حرام كمائى كرنے والا محتاج ہو اور حرام سے توبہ كر چكا ہو تو اسے حرام مال سے كچھ فائدہ حاصل كرنا جائز ہے، اس كا نمبر ( 78289 ) ہے.
بلاشك و شبہ شادى كى رغبت ركھنے والے كى شادى ميں معاونت كرنا تا كہ وہ عفت و عصمت حاصل كرے اور گناہ سے بچ سكے يہ بھى خير و بھلائى كے كاموں ميں شامل ہوتا ہے، اس بنا پر اگر آپ شادى كرنے والے اپنے رشتہ دار كو يہ سارا يا كچھ مال دے ديں تو كوئى حرج نہيں.
اور آپ كى جانب سے يہ صدقہ يا زكاۃ شمار نہيں ہو گا بلكہ يہ تو حرام مال سے چھٹكارا حاصل كرنے ميں شمار كيا جائيگا، كيونكہ صدقہ اور زكاۃ تو پاكيزہ اور حلال مال سے كيا جاتا ہے؛ اس ليے كہ اللہ تعالى پاك و طيب ہے اور پاكيزہ اور طيب كے علاوہ كچھ قبول نہيں كرتا.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو سيدھى راہ پر چلنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .