سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

شادى كرنے والے كو حرام مال دے كر حرام سے خلاصى پانا

99550

تاریخ اشاعت : 20-06-2024

مشاہدات : 6418

سوال

ميں نے ماضى ميں حرام ملازمت كى اور اس حرام مال كے متعلق آپ سے دريافت كيا تھا كہ اس مال كا كيا كروں، ميں اپنے ايك رشتہ دار پر يہ مال صدقہ كرنا چاہتا ہوں، آپ نے مجھے جواب ديا تھا كہ اس مال سے نفع حاصل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس وقت مجھے اس كى حرمت كا علم نہيں تھا، كيا ميں وہ سارا مال صدقہ كروں يا اس ميں سے كچھ، ميرا ايك رشتہ دار شادى كرنے والا ہے اور ميرى نيت ہے كہ ميں يہ مال اس پر صدقہ كر دوں، كيا ايسا كرنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس نے مجھ سے كچھ رقم بطور قرض مانگى ہے ـ ليكن افسوس ـ ميرے پاس اسے قرض دينے كے ليے كچھ نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كے پہلے سوال كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ: آپ كے پاس اس مال ميں سے جو رقم بچى ہے اسے نيكى و بھلائى كے كاموں ميں خرج كر كے نفع اٹھا سكتے ہيں، اس سوال كا نمبر ( 96614 ) ہے، اور ہم نے وہاں آپ كو ايك اور سوال كے جواب كا مطالعہ كرنے كا كہا تھا، جس ميں بيان ہوا ہے كہ اگر حرام كمائى كرنے والا محتاج ہو اور حرام سے توبہ كر چكا ہو تو اسے حرام مال سے كچھ فائدہ حاصل كرنا جائز ہے، اس كا نمبر ( 78289 ) ہے.

بلاشك و شبہ شادى كى رغبت ركھنے والے كى شادى ميں معاونت كرنا تا كہ وہ عفت و عصمت حاصل كرے اور گناہ سے بچ سكے يہ بھى خير و بھلائى كے كاموں ميں شامل ہوتا ہے، اس بنا پر اگر آپ شادى كرنے والے اپنے رشتہ دار كو يہ سارا يا كچھ مال دے ديں تو كوئى حرج نہيں.

اور آپ كى جانب سے يہ صدقہ يا زكاۃ شمار نہيں ہو گا بلكہ يہ تو حرام مال سے چھٹكارا حاصل كرنے ميں شمار كيا جائيگا، كيونكہ صدقہ اور زكاۃ تو پاكيزہ اور حلال مال سے كيا جاتا ہے؛ اس ليے كہ اللہ تعالى پاك و طيب ہے اور پاكيزہ اور طيب كے علاوہ كچھ قبول نہيں كرتا.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو سيدھى راہ پر چلنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب