الحمد للہ.
اول:
ہميشہ رہنے والى زينت جس سے جسم كے عضو كى شكل اور رنگ بھى تبديل ہو جاتا ہے، اور وقتى زينت ميں بہت فرق پايا جاتا ہے، پہلى قسم يعنى ہميشہ رہنے والى حرام ہے، اور يہ تغير خلق اللہ يعنى اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے، اور دوسرى يعنى وقتى مباح ہے، اور يہ مباح زينت و خوبصورتى ميں شامل ہوتى ہے.
الوشم: يعنى جسم گدوانا جسم كى جلد كا رنگ تبديل كرنا ہے اور اس كے ليے جسم ميں سوئى چبھوئى جاتى ہے جس سے خون بہہ نكلتا ہے، پھر اس جگہ ميں سرمہ وغيرہ بھرا جاتا ہے تا كہ اس جلد كا رنگ اللہ تعالى كى پيدا كردہ جلد كے رنگ كے علاوہ بدل جائے.
اور مہندى وغيرہ كےساتھ جلد كو رنگنا، اس وشم ميں شامل نہيں ہوتا، كيونكہ يہ جلد كى رنگت كو تبديل نہيں كرتا، بلكہ جلد پر مختلف قسم كے پھول بوٹے اور نقش بنائے جاتے ہيں، اور كچھ مدت كے بعد يہ رنگ اتر جاتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى نے عورت كے ليے مہندى كے ساتھ زينت و خوبصورتى حاصل كرنا مباح كي ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اس زينت كى اشكال و نقوش ذى روح چيز مثلا انسان يا حيوان كى شكل ميں نہ بنائے، اور نہ ہى وہ اس زينت كو غير محرم اور اجنبى مرد كے سامنے ظاہر كرے.
مستقل وشم يعنى گدوانے كى تين صورتيں ہيں، اور ان سب كا ايك ہى حكم يعنى حرام ہيں، وہ صورتيں درج ذيل ہيں:
پہلى صورت:
پرانا تقليدى طريقہ:
وہ طريقہ ہم اوپر بيان كر چكے ہيں كہ جلد ميں سوئى چبھو كر خون بہانا اور پھر اس جگہ سرمہ يا رنگدار مادہ بھر دينا.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
الواشمۃ: يہ وشم كا اسم مؤنث اسم فاعل ہے، يعنى وشم كرنے والى عورت، يہ وہ عورت ہے جو اپنے ہاتھ يا كلائى، يا ہونٹ وغيرہ يا اپنے جسم كے كسى بھى حصہ ميں سوئى وغيرہ داخل كرے حتى كہ خون نكل آئے، اور پھر اس جگہ ميں سرمہ يا چونا وغيرہ بھر دے جس سے وہ سبز رنگ كا ہو جائے، ايسا فعل كرنے والى كو واشمہ كہتے ہيں، اور جس كے ساتھ يہ فعل كيا گيا ہو اسے موشومہ كہتے ہيں، اور اگر كوئى عورت ايسا كرنے كا مطالبہ كرے تو اسے مستوشمہ كہا جاتا ہے.
اور يہ كرنے والى اور كروانےوالى اور اپنےاختيار كے ساتھ اسے طلب كرنے والى سب پر حرام ہے " انتہى.
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 14 / 106 ).
اس مسئلہ كے متعلق دلائل اور اہل علم كى كلام آپ سوال نمبر ( 21119 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
دوسرى صورت:
كيمائى مادہ استعمال كرنا، يا پھر سارى يا كچھ جلد كا رنگ تبديل كرانے كے ليے آپريشن كروانا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
لوگوں ميں ـ اور خاص كر عورتوں ميں ـ بعض كيمائى مواد اور طبعى جڑى بوٹيوں كا استعمال عام ہو چكا ہے جس سے جلد كا رنگ تبديل ہو جاتا ہے، اس طرح كہ يہ كيمائى مادہ اور طبعى جڑى بوٹياں استعمال كرنے كے بعد سياہ رنگ سفيد رنگت ميں بدل جاتى ہے، تو كيا يہ شرعا ممنوع ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ كچھ خاوند اپنى بيويوں كو يہ كيمائى مواد اور طبعى جڑى بوٹياں استعمال كرنے كا كہتے ہيں اور دليل يہ ديتے ہيں كہ عورت پر اپنے خاوند كے ليے زينت و خوبصورتى اختيار كرنا واجب ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر تو يہ تبديلى مستقل طور پر ہوتى ہے، تو يہ حرام اور كبيرہ گناہ ہے؛ كيونكہ يہ تو وشم يعنى جسم گدوانے سے بھى زيادہ شديد تغير خلق اللہ ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے بال ملانے، اور جسم گدوانے، اور جسم گودنے والى عورت پر لعنت فرمائى ہے.
صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ انہوں نے فرمايا:
" اللہ تعالى جسم گودنے اور جسم گدوانے والى، اور ابرو كے بال نوچنے اور ابرو كے بال نوچنے كا مطالبہ كرنے والى، اور حسن و خوبصورتى كے ليے دانت رگڑنے والى اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كرنے والى عورت پر لعنت فرمائے "
اور كہا: " مجھے كيا ہے كہ ميں اس پر لعنت نہ كروں جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے "
الواصلۃ: وہ عورت جس كے بال چھوٹے ہوں تو وہ ان كے ساتھ بال وغيرہ ملائے.
المستوصلۃ: وہ عورت جو اپنے بالوں كے ساتھ بال وغيرہ ملانے كا مطالبہ كرے اور كہے.
الواشمۃ: وہ عورت جو اپنى جلد گودے، اس طرح كہ اپنى جلد ميں سوئى وغيرہ داخل كر كے اس جگہ سرمہ يا كوئى اور چيز بھرے جس سے جلد كا رنگ تبديل ہو جائے.
المستوشمۃ: وہ عورت جو اپنى جلد گدوائے اور اس كو بلائے جو جسم گودتى ہے.
النامصۃ: وہ عورت جو اپنے چہرے كے بال نوچے، مثلا ابرو وغيرہ خود نوچے يا كسى دوسرے كے.
المتنمصۃ: وہ عورت جو ايسى عورت كو بلائے جو اس كے بال نوچے.
المتفلجۃ: جو اپنے دانتوں كو رگڑے، يعنى ريتى كے ساتھ رگڑے حتى كہ ان كے درميان خلا پيدا ہو جائے؛ كيونكہ يہ سب كچھ اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے.
اور سوال ميں جو كچھ ذكر كيا گيا ہے وہ تو حديث ميں آنے والى سے بھى شديد ترين تغير خلق اللہ ميں داخل ہوتا ہے " انتہى.
ديكھيں مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 17 ) جواب سوال نمبر ( 4 ).
اس مسئلہ كے متعلق مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2895 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
تيسرى صورت:
وشم مؤقت يعنى وقتى جسم گدوانا جو كہ تقريبا ايك برس تك باقى رہتا ہے.
شيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
آج كے دور جديد ميں سرمہ اور ہونٹ كى تحديد كا وشم كے طريقہ پر ايك نيا طريقہ ايجاد ہوا ہے جو تقريبا كئى ماہ يا ايك برس تك باقى رہتا ہے؛ اور يہ عام سرمہ اور ہونٹ تحديد كرنے والى قلم كے بدلے ميں ہے، اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
يہ جائز نہيں؛ كيونكہ يہ وشم كے مسمى ميں داخل ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جسم گودنے، اور جسم گدوانے كا مطالبہ كرنے والى پر لعنت فرمائى ہے.
كيونكہ يہ آنكھوں اور ہونٹوں كى تحديد تقريبا ايك برس يا نصف برس تك رہتى ہے، اور پھر جب پھيكى پڑ جائے تو دوبارہ كر ليا جاتا ہے، اور اسى طرح باقى رہتا ہے تو يہ وشم يعنى جسم گودنے كے مشابہ ہوا جو كہ حرام ہے.
اور اصل ميں سرمہ آنكھوں كا علاج ہے، جس كا رنگ سياہ يا مٹيالا ہوتا ہے، جو آنكھوں كى مرض سے حفاظت كرنے يا آنكھيں آ جانے كے وقت لگايا جاتا ہے، اور بعض اوقات عورتوں كے ليے يہ خوبصورتى اور زينت كا بھى باعث ہے، مثلا مباح زينت.
ليكن وقتى وشم كے طريقہ پر ہونٹوں كى تحديد كرنا ميرى رائے ميں جائز نہيں، اس ليے عورت كو مشتبہات سے دور رہنا چاہيے.
واللہ تعالى اعلم.
اللہ تعالى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. انتہى.
ماخوذ از: فتوى شيخ ابن جبرين جس پر ان كى مہر بھى ثبت ہے.
دوم:
وقتى وشم ـ جس پر ٹاٹو كا اطلاق كيا جاتا ہے ـ ليكن اس ميں افضل يہى ہے كہ اسے وشم كا نام ديا جائے، اس ميں ہمارى رائے يہ ہے كہ اسے مہندى سے رنگنے كا حكم ديا جائے؛ اگر تو يہ سوال ميں وارد صورت كى طرح ہو، اور يہ حرام طريقہ نہيں، تو يہ مباح ہو گا، ليكن اس كے ليے كچھ شروط ہيں:
1 - كہ يہ شكل مؤقت ہو اور ختم ہو جائے، نہ كہ ہميشہ اور قائم رہے.
2 - كسى ذى روح كى اشكال نہ بنائى جائيں.
3 - يہ زينت كسى اجنبى اور غير محرم مرد كے سامنے ظاہرنہ كى جائے.
4 - ان رنگوں اور خضاب ميں عورت كى جلد كو ضرر اور نقصان نہ ہو.
5 - اس ميں كافرہ اور فاجرہ عورتوں سےمشابہت نہ ہو.
6 - يہ نقش محرف شدہ اديان كے شعار كى اشكال نہ ركھتے ہوں يا كسى فاسد عقيدہ اور گمراہ منہج سے تعلق نہ ركھيں.
7 - اور اگر يہ عمل كوئى دوسرا كرے تو وہ عورت ہو، اور نہ ہى ستر والى جگہ ميں ہو.
جب يہ شروط پورى ہوں تو ہم اس سے زينت اختيار كرنے ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے.
الصنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بعض احاديث ميں وشم كى علت تغير خلق اللہ بيان كى گئى ہے، اور يہ نہيں كہا جا سكتا كہ مہندى وغيرہ كے ساتھ خضاب لگانا اس علت كو شامل ہے، اور اگر اسے شامل ہو تو يہ اجماع كے ساتھ مخصوص ہے، اور يہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى يہ لگائى جاتى رہى ہے "
ديكھيں: سبل السلام ( 1 / 150 ).
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
لوگوں ميں ـ اور خاص كر عورتوں ميں ـ بعض كيمائى مواد اور طبعى جڑى بوٹيوں كا استعمال عام ہو چكا ہے جس سے جلد كا رنگ تبديل ہو جاتا ہے، اس طرح كہ يہ كيمائى مادہ اور طبعى جڑى بوٹياں استعمال كرنے كے بعد سياہ رنگ سفيد رنگت ميں بدل جاتى ہے، تو كيا يہ شرعا ممنوع ہے ...... ؟
يہ سوال ابھى اوپر بيان بھى كيا گيا ہے.
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" .... اور سوال ميں جو كچھ بيان كيا گيا ہے وہ حديث ميں بيان كردہ تغير خلق اللہ ميں سب سے زيادہ شديد ہے.
اور اگر يہ تغير ثابت اور مستقل نہ ہو، مثلا مہندى وغيرہ لگانا تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ اتر جاتى ہے، اور يہ سرمہ اور رخسار سرخ كرنے والے مادہ، اور ہونٹ پر لگانے والى لپ اسٹك كى طرح ہے، چنانچہ واجب اور ضرورى ہے كہ تغير خلق اللہ يعنى اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى سےاجتناب كيا جائے، اور امت ميں اس بات كو عام كيا جائے، اور پھيلايا جائے كہ وہ اس سے اجتناب كريں تا كہ شر و برائى پھيل كر عام نہ ہو جائے كہ اسے ترك كرنا ہى مشكل ہو جائے " ا نتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 17 ) سوال نمبر ( 4)
اور ہم شيخ رحمہ اللہ كا فتوى نقل كر چكے ہيں كہ اگر يہ ذى روح كى اشكال پر مشتمل نہ ہو تو مباح ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 8904 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور بعض ڈاكٹر حضرات نے بھى اس مؤقت وشم كے نقصانات اور ضرر بتائيں ہيں كہ ان سے بچا جائے.
سعودى عرب كى ڈيلى اخبار " اليوم " ميں درج ذيل كالم چھپا ہے:
" مؤقت وشم يا جو ٹاٹو كے نام سے معروف ہے مختلف عمر كى لڑكيوں ميں بہت زيادہ پھيل رہا ہے، اور خاص كر تہواروں اور سكول كى چھٹيوں ميں اور بھى زيادہ ہو جاتا ہے.
اور ڈاكٹر اسامہ بغدادى نے جلدى بيماريوں سے ڈراتے ہوئے كہا ہے:
اس طرح كے اسٹكر جو جلد پر چپكائے جاتے ہيں جو جسم كو بدصورت كر ديتے ہيں، اور جلدى امراض پيدا كرنے كى طرف لے جاتے ہيں، اس كے پيچھلى طرف موجود گوند جو كہ جسم كے مساموں ميں سرايت كر جاتى ہے، اور پھر خون كے خليات كے ساتھ مل جاتى ہے، اور اسى طرح ا س اسٹكر ميں موجود رنگدار كيمائى مواد كے عمومى صحت پر اور بھى كئى منفى اثرات پڑتے ہيں " انتہى.
ديكھيں: اليوم عدد نمبر ( 11159 ) سال ( 39 ) بروز ہفتہ تاريخ ( 11 / 11 / 1424 ھـ ) الموافق ( 3 / 1 2004 م ).
چنانچہ اگر اس طريقہ كے نقصانات ثابت ہو جائيں كہ يہ طريقہ جلدى بيمارياں وغيرہ پيدا كرنے كا باعث ہے، تو پھر يہ شرعا ممنوع ہوگا، كيونكہ مسلمان شخص كے ليےايسا كام كرنا جائز نہيں جس ميں اس كو يا كسى دوسرے كو نقصان اور ضرر ہو، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" نہ تو كسى كو ضرر پہنچاؤ، اور نہ ہى خود ضرر اور نقصان اٹھاؤ "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 784 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .