الحمد للہ.
شريعت اسلاميہ نے بغير كسى حاجت و ضرورت اورتنگى كے طلاق كا مطالبہ كرنے سے منع فرمايا ہے حديث ميں اس كى بہت سخت ممانعت پائى جاتى ہے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى ضرورت و تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
الباس: كا معنى شدت و تنگى اور ايسا سبب جس كى بنا پر طلاق طلب كى جا سكتى ہو اور عليحدگى پر مجبور ہونا پڑے.
اس ليے بغير كسى تنگى و ضرور ت كے عورت كا طلاق طلب كرنا حرام ہے، بلكہ بعض علماء كرام نے ت واسے كبيرہ گناہ ميں شمار كيا ہے جيسا كہ ابن حجر الھيتمى نے " الزواجر " ميں بيان كيا ہے.
مندرجہ بالا حديث سے يہ سمجھ آتى ہے كہ اگر كوئى تنگى ہو اور عورت كو خاوند كے ساتھ رہنے ميں ضرر و نقصان ہو تو وہ طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے.
اس بنا پر اگر تو معاملہ بالكل وہى ہے جو آپ بيان كر رہى ہيں كہ خاوند نے آپ كو چھوڑ ركھا ہے اور تين برس ہو گئے آپ كے حقوق ادا نہيں كر رہا تو آپ كے ليے طلاق طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن افضل و بہتر يہى ہے كہ آپ صبر و تحمل سے كام ليں اور اپنى خاوند كہيں كہ جو كچھ وہ كر رہا ہے اس كا كوئى حل نكالے اور اپنا علاج كرائے اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے شفا دے اور معاملات صحيح ہو جائيں.
ليكن اگر آپ ديكھيں كہ معاملات جوں كے توں ہيں اور كوئى تبديلى نہيں ہوئى اور آپ كو اميد ہو كہ اگر وہ طلاق دے دے تو آپ كہيں اور شادى كر سكتى ہيں تو اس صورت ميں طلاق ميں ہى خير و بھلائى ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ عليحدہ ہو جائيں تو اللہ سبحانہ و تعالى دونوں كو اپنى وسعت سے غنى كر ديگا، اور اللہ تعالى وسعت والا حكمت والا ہے النساء ( 130 ).
آپ نے جو بيان كيا ہے كہ جب بھى خاوند آپ كو ياد كرتا ہے تو آپ سے نفرت كرتا اور تنگى محسوس كرتا ہے، ہو سكتا ہے اس كا سبب جادو كا اثر ہو، اس ليے اسے شرعى دم اور دعائيں استعمال كر كے علاج كرنا چاہيے، يا پھر وہ كسى نيك و صالح شخص كے پاس جائے جو شرعى دم كرتا ہو.
مزيد آپ سوال نمبر ( 11290 ) اور ( 12918 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .