جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

کیا کورونا وائرس طاعون میں شامل ہے؟

تاریخ اشاعت : 15-06-2020

مشاہدات : 6199

سوال

کیا حدیث میں مذکور طاعون میں کورونا وائرس شامل ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

طاعون ایک خاص بیماری ہے اور یہ جنوں کے نوک دار چیز چبھانے کی وجہ سے پھیلتی ہے، طاعون کی وجہ سے بہت زیادہ اموات ہوتی ہیں ، طاعون کی وجہ سے فوت ہونے والا شخص شہید ہوتا ہے، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (طاعون ہر مسلمان کے لیے شہادت کے درجے کا باعث ہے)اس حدیث کو بخاری: (2830) اور مسلم: (1916) نے روایت کیا ہے۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"بنیادی طور پر طاعون کی صورت میں جسم پر پھوڑے نکلتے ہیں۔ جبکہ وبائی مرض کسی بھی پھیل جانے والی بیماری پر بولا جاتا ہے، ان وبائی امراض پر طاعون کا لفظ اس لیے بول دیا جاتا ہے کہ ان بیماریوں کی وجہ سے بھی ہلاکتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ویسے تو ہر طاعون وبائی مرض ہوتا ہے، لیکن ہر وبائی مرض طاعون نہیں ہوتا، جیسے کہ ہم نے پہلے وضاحت کی ہے۔

اس چیز کی وضاحت سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے کہ: (طاعون جنوں میں سے تمہارے دشمنوں کی طرف سے چرکا ہوتا ہے۔) اور ملک شام میں جو وبا پھوٹی تھی وہ طاعون اور پھوڑوں کی شکل میں تھی، اسی کو طاعونِ عمواس سے موسوم کیا جاتا ہے۔" ختم شد
"اكمال المعلم" (7/ 132)

اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وصیت کے باب میں جس طاعون کا ذکر ہے اس سے مشہور بیماری مراد ہے، یہ جسم پر پھوڑوں اور سوزش کی شکل میں انتہائی المناک بیماری ہوتی ہے، جس میں ورم بھی آ جاتا ہے، پھوڑے پھنسی کے ارد گرد کا حصہ سیاہ، سبز، یا خاکی مائل بنفشی رنگ کا ہو جاتا ہے، اس ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں، عام طور پر یہ پھنسیاں بغلوں ،پیٹ کے نچلے حصے ، ہاتھوں، انگلیوں اور جسم کے دیگر حصوں میں نکلتی ہیں ۔" ختم شد
"تهذيب الأسماء واللغات" (3/ 187)

نیز ابن حجر رحمہ اللہ اہل لغت، طبی ماہرین اور فقہائے کرام کی گفتگو ذکر کرنے کے بعد طاعون کی تعریف کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
"خلاصہ یہ ہے کہ: طاعون کی حقیقت یہ ہے کہ طاعون ایک سوزش ہے جو کہ خون کھولنے کی وجہ سے رونما ہوتی ہے، یا پھر خون کا بہاؤ کسی ایک عضو کی جانب زیادہ ہونے سے عضو متاثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی جتنی بھی بیماریوں کے بارے میں لفظ طاعون استعمال کیا جاتا ہے وہ مجازی طور پر ہوتا ہے؛ کیونکہ دونوں قسم کی بیماریوں میں مرض بہت زیادہ پھیلتا ہے، یا ان کی وجہ سے اموات کثرت سے واقع ہوتی ہیں۔

طاعون اور وبا میں تفریق کی دلیل اس باب کی چوتھی حدیث بھی ہے کہ طاعون مدینے میں داخل نہیں ہو گا، اور اس سے پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث گزر چکی ہے کہ: جب ہم مدینہ آئے تو یہ سب سے زیادہ وباؤں والی سر زمین تھی۔ اسی کے بارے میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: مشرکین مکہ نے ہمیں وبائی سرزمین میں بھیج دیا ہے۔ ایسے ہی کتاب الجنائز میں ابو الاسود کی روایت ہے کہ : میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں مدینہ آیا تو ان میں بہت زیادہ ہلاکتیں ہو رہی تھیں، اسی طرح کتاب الطہارۃ میں عرینہ قبیلے کے لوگوں کی حدیث میں ہے کہ : مدینے کی آب و ہوا انہیں موافق نہ آئی۔ جبکہ دوسری حدیث میں الفاظ ہیں کہ[عرینہ کے لوگوں نے کہا]: مدینہ تو وبائی سرزمین ہے۔

تو ان سب احادیث اور آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وبائیں مدینے میں آ چکی ہیں، اور پہلی حدیث میں ذکر ہے کہ طاعون مدینے میں داخل نہیں ہو گا؛ تو اس سے معلوم ہوا کہ وبائی امراض اور طاعون میں فرق ہے، تاہم ہر وبائی مرض کو طاعون کہنے والوں نے مجازی طور پر ان امراض طاعون کہا ہے۔

جیسے کہ اہل لغت کہتے ہیں: وبا ہر پھیلنے والا مرض ہو سکتا ہے، عربی میں: أَوْبَأَتِ الْأَرْضُ اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی علاقہ وبائی امراض کے گھیرے میں آ جائے اسی طرح وَبَئَتِ الْأَرْضُبھی اسی وقت بولا جاتا ہے یہ فاعل کے معنی میں جملہ ہے، یعنی زمین وبائی ہو گئی جبکہ وُبِئَتِ الْأَرْضُ مفعول کے معنی میں جملہ ہے، یعنی زمین پر وبائی مرض پھیلایا گیا۔

طاعون اور وبائی مرض میں ایک اور فرق جس کے بارے میں طبی ماہرین گفتگو نہیں کرتے اور نہ ان کے علاوہ طاعون کے متعلق لکھنے والوں نے یہ بات کی ہے کہ طاعون جنوں کے چرکے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

مذکورہ بات طبی ماہرین کی گفتگو سے متصادم بھی نہیں ہے کہ ان کے ہاں طاعون خون کھولنے یا بہاؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ طبی ماہرین کی بتلائی ہوئی وجہ جنوں کے غیر مرئی چرکے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہو، اور اس کی وجہ سے زہریلا مادہ پیدا ہو جائے اور پھر اس کے نتیجے میں خون کھولنے لگے یا خون کے بہاؤ میں خلل آ جائے، مزید یہ بھی ہے کہ جنوں کے چرکے کے متعلق طبی ماہرین اس لیے گفتگو نہیں کرتے کہ یہ چیز عقل یا مشاہدے سے معلوم نہیں ہو سکتی بلکہ اس کا تعلق وحی اور شریعت سے ہے، اس لیے طبی ماہرین اپنے اصول و ضوابط کے مطابق ہی طاعون کے بارے میں گفتگو کر پائے ہیں۔۔۔

طاعون کے جنوں کے چرکے کی وجہ سے پیدا ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ : طاعون عام طور پر سب سے اچھے موسم میں ، اور سب سے بہترین آب و ہوا والے علاقے میں پھوٹتا ہے، اگر طاعون کے پھوٹنے کی وجہ آب و ہوا کی آلودگی ہو تو طاعون ہمیشہ ہی زمین پر رہے؛ کیونکہ آب و ہوا کبھی اچھی ہو جاتی ہے اور کبھی خراب ، جبکہ طاعون کبھی آتا ہے اور کبھی نہیں آتا، طاعون کے پھوٹنے کا کوئی اصول یا مشاہداتی ضابطہ نہیں ہے۔ اسی لیے کبھی تو ہر سال ہی پھوٹ پڑتا ہے اور کبھی سالہا سال نہیں پھوٹتا۔

نیز طاعون اگر آب و ہوا کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہو تو انسانوں اور حیوانات سب پر اس کا حملہ ہو، لیکن مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ طاعون بہت سی مخلوق پر حملہ آور ہوتا ہے ، لیکن پھر بھی یہ ایسی مخلوقات کو نقصان نہیں پہنچاتا جو انہی جنوں جیسا مزاج رکھتی ہیں۔

نیز اگر یہ بات ٹھیک ہو تو سارے جسم پر طاعون کا حملہ ہوتا لیکن طاعون جسم کے مخصوص حصوں پر ہی حملہ آور ہوتا ہے اس سے آگے اس کے اثرات نظر نہیں آتے۔

اسی طرح آب و ہوا کے خراب ہونے سے انسانی جسم کے اخلاط بدل جانے چاہییں، اور بیماریاں کثرت سے پھوٹ پڑیں، لیکن طاعون میں ایسے نہیں ہوتا صحت مند انسان اس میں مبتلا ہو کر لقمہ اجل بن جاتا ہے۔

تو ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون جناتی چرکوں سے پیدا ہوتا ہے، جیسے کہ اس بارے میں منقول احادیث میں یہ چیز ثابت ہے، جیسے کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ: (میری امت طعن [قتل و غارت] اور طاعون کی وجہ سے فنا ہو گی) کہا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ، یہ قتل و غارت کو تو ہم نے پہچان لیا ہے، لیکن یہ طاعون کیا چیز ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ تمہارے دشمن جنوں کا وَخْز یعنی چرکا ہے، اور ہر ایک میں تمہارے لیے شہادت کا درجہ ہے) اس حدیث کو امام احمد نے زیاد بن علاقہ کی سند سے بیان کیا ہے ، وہ ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں جو کہ سیدنا ابو موسی سے روایت کرتا ہے۔۔۔ تو اس اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے، یہی وجہ ہے کہ ابن خزیمہ اور حاکم نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے اور نقل بھی کیا ہے، جبکہ مسند احمد اور طبرانی میں ایک اور سند کے ساتھ یہ روایت موجود ہے، جس میں ابو موسی اشعری کے بیٹے ابو بکر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: (یہ تمہارے دشمن جنوں کا چرکا ہے، اور وہ تمہارے لیے شہادت کے درجے کا باعث ہے) اس روایت کے تمام راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں، صرف ابو بَلج[ب پر زبر، لام ساکن، اور آخر میں جیم] جن کا نام یحییٰ ہے، انہیں ابن معین ، نسائی اور دیگر اہل علم نے ثقہ قرار دیا ہے جبکہ ان کے علاوہ اہل علم نے اسے شیعہ ہونے کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، یہاں پر اس راوی کا شیعہ ہونا جمہور کے ہاں اس روایت قبول کرنے میں مانع نہیں ہے۔ ویسے اس حدیث کی ایک تیسری سند بھی ہے جو طبرانی میں موجود ہے۔

اس مسئلے میں اصل حدیث ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی ہے، اور اس کی اسانید متعدد ہونے کی وجہ سے اس کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے۔

حدیث میں مذکور وَخْز کا اعراب اس طرح ہے کہ واو پر زبر، خ پر سکون اور آخر میں ز ہے، اہل لغت کہتے ہیں یہ خراش کو کہتے ہیں بشرطیکہ گوشت تک نہ پہنچے۔

اور یہاں جنوں کے  چرکے یا خراش سے اس لیے موصوف کیا گیا ہے کہ یہ در حقیقت جسم کی اندرونی جانب سے باہر کی طرف رونما ہوتی ہے، اس لیے پہلے جسم کے اندر اثر دکھاتی ہے اور پھر اس کا اثر باہر ظاہر ہونے لگتا ہے، اور بسا اوقات یہ باہر ظاہر ہی نہیں ہوتی۔

جبکہ انسانی خراش یا چرکا جسم کی بیرونی جانب سے لگ کر اندرونی جانب اثر کرتا ہے، اور بسا اوقات اندر تک اس کے اثرات نہیں پہنچتے ۔" ختم شد
"فتح الباری" (10/ 180- 182)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"طاعون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مخصوص قسم کی ایک جان لیوا بیماری ہے، جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر ایسا مرض جو بہت زیادہ خطرناک ہو اور وبائی ہو اسے طاعون کہتے ہیں، جیسے کہ ہیضے کے بارے میں ہے کہ یہ جس وقت کسی سرزمین پر رونما ہو جائے تو بہت جلد پھیل جاتا ہے۔ اسی طرح گردن توڑ بخار اور دیگر طبی ماہرین کے ہاں مشہور بیماریاں جنہیں ہم بھی نہیں جانتے ان سب کو طاعون میں شمار کیا گیا ہے۔

تو یہ تمام بیماریاں بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں اور انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہیں، تو ان تمام بیماریوں کے بارے میں حقیقی یا حکمی طور پر طاعون کا لفظ بولنا صحیح ہے۔

لیکن سنت نبوی سے جو بات محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ طاعون اور دیگر وبائی امراض میں فرق ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہدائے امت محمدیہ شمار کرواتے ہوئے فرمایا: طاعون اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید ہے۔

تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کو پیٹ کی بیماری لگ جائے تو وہ طاعون کے مرض میں مبتلا شخص سے الگ شخصیت ہے؛ کیونکہ یہاں پیٹ کی بیماری سے مراد ایسا شخص ہے جسے اسہال لگ جائیں۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (11/ 110)

تو ان تمام تر تفصیلات کے بعد درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں:

1- طاعون جنوں کی طرف سے انسانوں کو لگائے جانے والے چرکوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔

2- طاعون کی بیماری میں جسم پر پھوڑے ، پھنسیاں اور انتہائی درد کے ساتھ بدن پر سوزش آ جاتی ہے، پھوڑوں کے ارد گرد کا حصہ سیاہ، سبز، یا خاکی مائل بنفشی رنگ کا ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں، عام طور پر یہ پھنسیاں بغلوں ،پیٹ کے نچلے حصے ، ہاتھوں، انگلیوں اور جسم کے دیگر حصوں میں نکلتی ہیں ۔

3- ایسی وبائی بیماریاں موجود ہیں جن سے بہت زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں، تو ان بیماریوں کو مجازی طور پر طاعون کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ان بیماریوں کو وہ طاعون نہیں کہہ سکتے کہ جس کی وجہ سے مرنے والے کو حدیث میں شہادت کا درجہ دیا گیا ہے، ہاں ان بیماریوں میں بھی طاعون کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر پابندی اور لاک ڈاؤن ہو گا؛ کیونکہ دونوں میں یکساں علت پائی جاتی ہے۔

4- طاعون کی بیماری ایک خاص بیماری ہے اس میں پھوڑے پھنسیاں، اور زخم ہوتے ہیں، اس کی دلیل مسند احمد: (17159) اور سنن نسائی : (3164) میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (شہدائے کرام اور اپنے بستروں پر وفات پانے والے ؛طاعون کی بیماری میں فوت ہونے والے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کے ہاں فیصلہ کروانے کے لیے آئیں گے، تو شہداء کہیں گے کہ یا اللہ! ان کا حکم ہمارے والا ہی ہے؛ کیونکہ انہیں بھی قتل کیا گیا جیسے کہ ہمیں قتل کیا گیا، جبکہ اپنے بستروں پر وفات پانے والے کہیں گے کہ ان کا حکم ہمارے والا ہے؛ کیونکہ یہ بھی اپنے بستروں پر فوت ہوئے جیسے ہماری وفات ہوئی تھی! اس پر اللہ تعالی فرمائیں گے: تم ان کے زخموں کی جانب دیکھو؛ اگر ان کے زخم قتل کر دینے والے گھاؤ جیسے ہی ہیں تو پھر یہ بھی شہیدوں میں ہیں اور انہی کے ساتھ ہوں گے، تو جب ان کے زخم دیکھے جائیں گے تو ان کے زخم بھی شہیدوں کے زخموں جیسے ہوں گے۔) اس حدیث کو ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری: (10/194) میں حسن قرار دیا ہے، جبکہ صحیح سنن نسائی میں علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ سندھی ؒ مسند پر اپنے حاشیے میں لکھتے ہیں کہ:
"اللہ تعالی کا فرمان : (ان کے زخم بھی شہیدوں کے زخموں جیسے ہوں گے۔) کے عربی الفاظ میں لفظ "جراح" جیم کی زیر کے ساتھ ہے، اور ان کی مشابہت اس طرح سے ہو سکتی ہے کہ ان کا خون بھی سرخ رنگت والا تو ہو گا لیکن اس کی خوشبو کستوری جیسی ہو گی۔" ختم شد

5- تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا احادیث میں ذکر ہونے والا طاعون نہیں ہے کہ طاعون کی وجہ سے مرنے والے کو شہادت کے درجے کا وعدہ دیا گیا ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ہر قسم کی آزمائش، وبائی امراض اور بری بیماریوں سے محفوظ رکھے، اور مسلمانوں میں سے جو بھی اس بیماری کی وجہ سے فوت ہو تو اس کے لیے اپنا وسیع فضل اور رحمت لکھ دے۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب