جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

سرمنڈوانے اوربال چھوٹے کروانے میں ہونے والی غلطیاں

سوال

وہ کونسی سی غلطیاں ہیں جوبعض لوگوں سے سرمنڈوانے اوربال چھوٹے کرواتے وقت سرزد ہوتی ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سرمنڈوانے اوربال چھوٹے کرانے میں سرزد ہونے والی بعض غلطیاں مندرجہ ذيل ہیں :

اول :

بعض لوگ اپنے سر کا کچھ حصہ استرے کے ساتھ مکمل مونڈ دیتے ہیں اورباقی حصہ رہنے دیتے ہيں ، اورمیں نے اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے ، میں نے ایک شخص کوصفامروہ کی سعی کرتے ہوئے دیکھا اوراس نے اپنا نصف سر مکمل طور پرمنڈوا رکھا تھا اورباقی بال اسی طرح تھے ، میں نے اسے پکڑا اور کہا : بھائى آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ تواس نے جواب میں کہا : میں نے یہ اس لیے کیا ہے کہ میں دوبار عمرہ کرنا چاہتا ہوں لہذا نصف سر پہلے عمرہ کے لیے منڈاویا ہے اورنصف اپنے اس عمرہ کے لیے چھوڑ دیا ہے ، یہ جہالت اورگمراہی ہے ، کوئی اہل علم نے ایسا کرنے کا نہیں کہتا ۔

دوم :

بعض لوگ جب عمرہ سے حلال ہونا چاہتے ہیں تواپنے سر کے چند ایک بال ایک ہی جانب سے کاٹ لیتے ہیں ، اوریہ آیت کریمہ کے ظاہرکے بھی خلاف ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

) مُحلقِّين رؤوسكم ومقصِّرين (

تم اپنے سرمنڈواتے ہوئے اورسرکےبال کٹواتے ہوئے الفتح ( 27 ) ۔

لہذا سر پربال کٹوانے کا اثر واضح طور پر ہونا ضروری ہے ، اوریہ تومعلوم ہے کہ ایک دو یا تین بال کٹوانے سے کوئى اثر نہيں ہوتا اورنہ ہی عمرہ کرنے والے کے سر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے بال کٹوائے ہيں ، لہذا یہ اس آيت کریمہ کے ظاہر کے بھی خلاف ہوگا ۔

اوران دونوں غلطیوں کا علاج یہ ہے کہ جب سرمنڈوانا چاہے تومکمل سر کومنڈوائے اورجب بال چھوٹے کروانا چاہے تووہ اپنے سر کے سارے بال چھوٹے کروائے چند بالوں پر اکتفا نہيں کرنا چاہیے ۔

سوم :

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جوسعی سے فارغ ہوتے ہیں تواگر انہيں کوئى سرمونڈنے یا بال چھوٹے کرنے والا نہ ملے تووہ اپنے گھر چلے جاتے ہيں اورجاکر اسی طرح حلال ہوکر اپنا لباس زيب تن کرلیتے ہيں اورپھر بعد میں وہ اپنا سرمنڈواتے ہیں یا بال کٹوالیتے ہیں ، جوکہ بہت بڑی غلطی ہے ، اس لیے کہ انسان عمرہ سے اس وقت تک حلال نہيں ہوتا جب تک وہ اپنا سرمنڈوا نہ لے یا بال چھوٹے نہ کروا لے ، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ان صحابہ کرام کوجواپنے ساتھ قربانی نہيں لائے تھے انہيں حج کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا :

( اسے چاہیے کہ وہ اپنے بال چھوٹے کروالے اورپھر حلال ہوجائے ) بخاری ( 1691 ) مسلم (1229)

تویہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بال چھوٹے کروانے کے بغیر حلال نہيں ہوسکتا ۔

تواس بنا پر جب کوئى شخص سعی سے فارغ ہو اور کوئی بال مونڈنے یا چھوٹےکرنے والا نہ ملے تواسےسرمنڈوانے یا بال چھوٹے کروانے تک اپنے احرام میں ہی باقی رہنا ہوگا، اس سے قبل حلال ہونا جائز نہيں ، اگر بالفرض کسی شخص نے جہالت میں ایسا کربھی لیا کہ اس نے سرمنڈوانے یا بال چھوٹے کروانے سے قبل یہ گمان کرتے ہوئے کہ ایسا کرنا جائز ہے اپنے آپ کوحلال کرلیا تواس کی جہالت کی بنا پراس پر کوئی حرج نہيں ہوگا ۔

لیکن اس پرواجب ہے کہ جب اسے علم ہو وہ اپنا لباس اتار دے اوراحرام کی چادریں زیب تن کرلے کیونکہ احرام کی حالت میں جہالت کی وجہ سے ہونے والے تحلل میں رہنا جائز نہیں کیونکہ وہ ابھی تک حلال ہی نہیں ہوا، پھر جب وہ اپنا سرمنڈوا لے یا بال چھوٹے کروا لے تووہ حلال ہوجائے گا ۔ انتہی .

ماخذ: شیخ محمد ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب : "دلیل الاخطاء التی یقع فیھا الحاج والمعتمر" سے لیا گیا ۔