جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

بيوى سے حسن معاشرت كيے بغير ہم بسترى كا مطالبہ كرے تو كيا بيوى انكار كر سكتى ہے

تاریخ اشاعت : 23-05-2011

مشاہدات : 8619

سوال

ميں دينى احكام كا التزام كرتى ہوں اور شادى شدہ ہوں ميرے دو بچے بھى ہيں، اور اسى طرح ميرا خاوند بھى اللہ كے سامنے ميں اپنا تزكيہ نہيں كرتى، ہمارى شادى محبت كى تھى، شادى كے تقريبا دو برس بعد ہم نے دين ك التزام شروع كيا، اب ہم ايك دوسرے سے تعارف كے اسلوب پر نادم ہيں.
ميں اميد ركھتى ہوں كہ آپ پورے شرح صدر كے ساتھ ميرى حالت سنيں گے: ہمارے مابين چھوٹى چھوٹى بہت سارى مشكلات پيدا ہوتى رہتى ہيں، ہر حالت ميں چاہے ميں غلطى پر ہوں يا ميرا خاوند ميں ہى صلح كرنے ميں ابتدا كرتى ہوں.
ميں اپنى ازدواجى زندگى كے خاتمہ سے ڈرتى رہتى ہوں اور مجھے اپنى اولاد كا بھى خطرہ رہتا ہے، ميرا خاوند ہميشہ ميرى بلند آواز كى شكايت كرتا ہے، اور وہ اس معاملہ ميں حق پر ہے، ميں اپنى اصلاح كرنے كى كوشش بھى كرتى ہوں.
اب ہمارے مابين ايك اور مشكل پيدا ہوگئى ہے وہ يہ كہ: ميرے بچے بيمار تھے اور ميں انہيں ڈاكٹر كے پاس لے جانا چاہتى تھى اور خاوند عشاء كى نماز كے ليے گيا ہوا تھا، اس ليے ميں نے جلدى جلدى تيارى كى تا كہ نماز كے بعد خاوند واپس آئے تو جانے ميں دير نہ ہو جائے كيونكہ ڈاكٹر جلد كلينك جلد بند كر ديتا ہے.
خاوند جب نماز ادا كر كے تاخير سے آيا تو ميں تيار ہو چكى تھى جب اس نے ہميں تيار ديكھا تو صرف اس بات پر ناراض ہوا كہ تم نے ميرى اجازت كے بغير ہى تيارى كيوں كى ہے، اور اجازت كے بغير ہى تيارى كيوں كى ہے.
اس ليے اس نے جانے سے انكار كر ديا اور جا كر ويسے ہى دوائى لے آيا، ميں نے بہت منتيں كيں ليكن وہ نہ مانا اور پھر دوبارہ جا كر ايك اور دوائى لے آيا، اس طرح ڈاكٹر كے پاس جانے كا وقت بھى ختم ہو گيا، ميں بہت روئى اور شام كو بچے كا ٹمپريچر چاليس تك پہنچ گيا.
اس سارے واقع ميں وہ يہ ماننے اور اعتراف كرنے پر تيار نہيں كہ اس نے ڈاكٹر كے پاس نہ جانے كا فيصلہ كر كے غلطى كى ہے، اور اب تك مجھ سے ناراض ہے اور مجھے حاكمانہ انداز ميں حكم ديتا ہے،
چار دن سے يہ سلسلہ چل رہا ہے، ليكن اس كے باوجود وہ مجھے حق مجامعت كى ادائيگى كا مطالبہ كرتا ہے.
مجھے علم ہے كہ اگر بيوى خاوند كے مطالبہ پر مجامعت سے انكار كر دے تو اس كے ہاں اس كى سزا بہت شديد ہے، ميں اس سے صرف يہى چاہتى ہوں كہ ميرے ساتھ اچھا معاملہ كرے تا كہ ميں اس كے مطالبہ پورا كرنے پر موافقت كروں ليكن وہ ايسا كرنے سے انكار كرتا ہے.
بلكہ وہ مجھے كہتا ہے كہ: ميں تجھے اپنى انگلى ميں انگوٹھى كى طرح ديكھنا چاہتا ہوں جيسے مرضى گھما لوں، اور وہ مجھ سے چاہتا ہے كہ ميں اس كى اندھى اطاعت كروں اور اس كے ليے وہ احاديث سے استدلال كرتا ہوئے كہتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اگر سجدہ كسى كو جائز ہوتا تو ميں بيوى كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے، اس كے علاوہ دوسرى احاديث سے بھى استدلال كرتا ہے.
ميں بھى اس سے چاہتى ہوں كہ وہ ميرے ساتھ بہتر طريقہ سے پيش آئے اور ميرے ساتھ حسن معاشرت كرے، ليكن اس كا جواب يہ ہے كہ:
خاوند كے مجامعت كے مطالبہ ميں كوئى شرط نہيں.
ميں اس كى منت كرتى ہوں كہ ميرے ساتھ اچھا معاملہ كرے ليكن وہ جواب ديتا ہے كہ:
" اب نہ تو ميں تجھے مارتا ہوں، اور نہ ہى تيرى توہين كرتا ہوں، اور ابھى تك تو تم نے كوئى برا معاملہ ديكھا ہى نہيں ہے "
بالفعل ميں اللہ كى لعنت كے ڈر سے مجامعت پر موافق ہو گئى اور اثنائے مجامعت روتى رہى ليكن اس كے باوجود اس پر كوئى اثر تك نہيں ہوا، اور ابھى تك وہ اپنے موقف پر قائم ہے، ميں نے اسے آخرى بار يہ بات كہى كہ:
اگر تم ميرے ساتھ حسن معاشرت سے پيش نہيں آؤ گے تو ميں تيرى مجامعت كى خواہش پورى نہيں كرونگى، ليكن وہ اس سے انكار كرتا اور جو چاہے وہى كريگا.
اب ميں چاہتى ہوں كہ اپنى ساس كے سامنے اپنى شكايت پيش كروں اور وہ جو فيصلہ كرے اسے تسليم كروں، ليكن اس نے اس سے بھى انكار كر ديا ہے، وہ كہتا ہے كہ اگر تم نے ايسا كيا تو تم خاوند كى اطاعت سے خارج ہو جاؤگى، اور اس كى اللہ كے ہاں شديد سزا ملےگى.
جناب والا اللہ كے ليے آپ مجھے بتائيں كہ اس سلسلہ ميں شرعى حكم كيا ہے ؟
ميرے ساتھ وہ اس طرح كا معاملہ كر رہا ہے تو كيا ميں پھر بھى اس كى بات تسليم كر لوں، يا كہ مجھے انكار كرنے كا حق حاصل ہے ؟
اور اگر ميں انكار كر دوں تو كيا اللہ كے ہاں سزا كى مستحق ٹھروں گى ؟
يا پھر مجھے كيا كرنا چاہيے، كيا ميں اس كى والدہ يا اپنى والدہ يا پھر اپنے يا اس كے والد كو شكايت لگاؤں ؟
يہ علم ميں رہے كہ اس نے اس سے انكار كيا ہے، اور اس اسلوب ميں ميں اس كے ساتھ زندگى نہيں گزار سكتى، برائے مہربانى مجھے كچھ بتائيں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند اور بيوى دونوں كو واجبات اور حقوق كى ادائيگى كى حرص ركھنى چاہيے، اور وہ آپس ميں ايك دوسرے سے حسن معاشرت اختيار كريں، اور فضل واحسان اور نيكى كريں اور آپس كى مشكلات كو محبت و مودت كى فضا ميں افہام و تفہيم سے حل كريں.

تا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے اس فرمان پر عمل ہو سكے:

اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).

اور اس فرمان پر بھى:

اور ان ( عورتوں ) كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ، اور مردوں كو ان عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى عزيز و غالب ہے البقرۃ ( 228 ).

اور اس ميں درج ذيل امور پر عمل كر كے معاونت حاصل ہو سكتى ہے: اختلافات كے وقت اپنے آپ كو شريعت كے حكم كا تابع بنانے كى عادت بنائى جائے، تا كہ واضح ہو سكے كہ كون غلطى پر ہے اور كون صحيح ہے.

اگر خاوند اور بيوى دونوں ہى اس پر عمل كريں تو اس ميں خير عظيم ہوگى، كيونكہ ازدواجى زندگى ميں يہ اختلافات ضرور ہوتے ہيں يہ زندگى خالى نہيں ہو سكتى اس ليے اگر ہر ايك دوسرے سے اعراض كرے اور يہ انتظار كرے كہ صلح ميں دوسرا پہل كرے تو اس طرح اختلافات اور زيادہ ہو جائينگے، اور اس ميں طوالت پيدا ہو جائيگى، اور شيطان بغض و عداوت ڈالنے كى راہ حاصل كر لےگا.

اس ليے ہمارى تو يہى نصيحت ہے كہ آپ اپنے خاوند كے ساتھ شرعى فيصلہ پر متفق ہو جائيں، اور جس كى بھى غلطى ہو وہ اپنى غلطى كو جلد تسليم كرے چاہے غلطى كوئى بھى ہو اور كتنى بھى بڑى ہو.

دوم:

اگر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك اپنے واجب ميں كمى و كوتاہى سے كام ليتا ہے تو اس كے مقابلہ ميں دوسرا بھى ايسے ہى نہ كرے، بلكہ اسے جس طرح حكم ديا گيا ہے اسى طرح حق كى ادائيگى كرنى چاہيے، تا كہ اللہ سبحانہ و تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كر سكے.

كيونكہ ايسا كرنے ميں ہى خير و بھلائى ہے اور اس كا انجام بھى اچھا ہے، اس ليے اگر خاوند اپنى بيوى كے ساتھ نان و نفقہ يا لباس وغيرہ كے حقوق ميں كوتاہى سے ليتا ہے، يا پھر اس كے ساتھ معاملات ميں سختى كرتا ہے، يا اس سے بدزبانى يا عملى طور پر اچھا پيش نہيں آتا تو بيوى كے ليے يہ مباح نہيں ہے كہ وہ بھى اس كے جواب ميں خاوند كے مطالبہ پر حق مجامعت كى ادائيگى ميں كوتاہى كرے؛ كيونكہ يہ ايسا معاملہ ہے جس كا شريعت نے حكم ديا ہے، اور اس پر عمل نہ كرنے والى عورت كے ليے بہت شديد وعيد آئى ہے، اور پھر خاوند كا گناہ كرنے سے بيوى كے ليے بھى اسى طرح گناہ كرنے كو جائز نہيں كر ديتا.

امام بخارى اور امام مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب مرد اپنى بيوى كو اپنے بستر پر ( مجامعت كے ليے ) بلائے اور بيوى انكار كر دے اور خاوند اس پر ناراض ہو كر رات بسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے بيوى پر لعنت كرتے رہتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1736 ).

اس ليے آپ اپنے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى ميں جلدى كريں، اور برے سلوك كا جواب برا سلوك كر كے نہ ديں، بلكہ آپ اس كے مقابلہ ميں اس سے اچھائى سے پيش آئيں جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

نيكى اور بدى برابر نہيں ہوتى، برائى كو بھلائى سے دور كرو پھر وہى جس كے اور تمہارے درميان دشمنى ہے ايسا ہو جائيگا جيسے جگرى دوست

اور يہ بات انہيں كو نصيب ہوتى ہے جو صبر كريں اور اسے سوائے بڑے نصيبے والوں كے كوئى نہيں پا سكتا حم السجدۃ ( 34 - 35 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 126994 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

رہا مسئلہ يہ كہ آپ اپنے اس معاملہ كى اپنى ساس يا پھر اپنى والدہ سے شكايت كريں، اصلا اس ميں كوئى حرج والى بات نہيں، كيونكہ ھند بنت عتبہ نے اپنے خاوند ابو سفيان رضى اللہ تعالى عنہ كى شكايت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كى تھى.

بلكہ كچھ عورتيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اپنے خاوندوں كى سوء معاشرت كى شكايت لے كر گئى تھيں چنانچہ اسى كا ذكر كرتے ہوئے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بہت سارى عورتيں آل محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے گھر آ كر اپنے خاوندوں كى شكايت كرتى ہيں، يہ لوگ تم ميں اچھے نہيں ہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2146 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن جب آپ نے اپنے خاوند كے سامنے يہ تجويز ركھى اور اس نے شدت كے ساتھ ايسا كرنے سے انكار كيا ہے تو اس صورت ميں ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ ايسا مت كريں، كيونكہ اس سے آپ كا خاوند اور زيادہ عناد اختيار كر جائيگا، اور اس كے منفى اثرات مرتب ہونگے.

اس ليے آپ اسے مؤخر كر ديں، اور ايك بار پھر نرم رويہ كے ساتھ افہام و تفہيم اور محبت و مودت كى كوشش كريں اور اگر آپ يہ سمجھتى ہوں كہ وہ يہاں اس ويب سائٹ پر اپنى مشكل پڑھ كر ہمارى نصيحت قبول كرےگا تو پھر آپ اسے ضرور پڑھائيں، اميد ہے اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے مابين صلح كرا دے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كر دے.

دوم:

خاوند سے كہا جائيگا كہ: تم اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو اور اپنے ذمہ حقوق كى ادائيگى كرو، اور تم دھمكياں اور ڈراوے مت دو، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ، اور مردوں كو عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى عزيز و غالب ہے البقرۃ ( 228 ).

ضحاك رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" جب عورتيں اللہ سبحانہ و تعالى اور اپنے خاوندوں كى اطاعت و فرمانبردارى كريں تو خاوند كو بھى چاہيے كہ وہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كرے، اور اسے تكليف و اذيت نہ دے، اور اپنى وسعت و استطاعت كے مطابق بيوى پر خرچ كرے.

اور ابن زيد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كے معاملہ ميں اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے، اور اسى طرح بيويوں كو بھى اپنے خاوندوں كے معاملہ ميں اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرنا چاہيے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنھما فرماتے ہيں:

" ميں يہ پسند كرتا ہوں كہ اپنى بيوى كے ليے خوبصورتى اور تزيين اختيار كروں، جس طرح يہ پسند كرتا ہوں كہ وہ بھى ميرے ليے زيبائش اختيار كرے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كے ليے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جس طرح ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ .

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان بھى ہے:

اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت كرو، اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے النساء ( 19 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ان عورتوں كو اچھى بات كہو، اور ان كے ساتھ اعمال بھى اچھے كرو، اور حسب استطاعت اپنى شكل و ہيئت بھى اچھى بناؤ، جس طرح تم يہ چاہتے ہو كہ وہ بھى تمہارے ساتھ بہتر سلوك كريں تو تم بھى ويسے ہى كرو كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كے ليے بھى ايسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سب سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے اچھا ہے، اور ميں تم سب ميں سے اپنے گھر والوں كے ليے اچھا ہوں "

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اخلاق كريمہ ميں يہ شامل تھا كہ: آپ حسن معاشرت والے تھے، اور ہميشہ خوش رہتے، اور اپنى بيويوں كے ساتھ خوش گپياں كرتے، اور ان كے ساتھ نرم رويہ اختيار كرتے، اور ان پر وسيع خرچ كرتے، اور اپنى بيويوں كو ہنساتے، حتى كہ ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے دوڑ ميں مقابلہ بھى فرمايا كرتے تھے جس سے ان ميں محبت پيدا ہوتى.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ: ايك بار رسول كريم صلى اللہ عليہ نے ميرے ساتھ دوڑ ميں مقابلہ كيا تو ميں آگے نكل گئى، يہ اس وقت كى بات ہے جب ابھى ميں دبلى پتلى تھى، اور پھر جب ميں موٹاپے كا شكار ہو گئى اور ميرا وزن بڑھ گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے ساتھ دوڑ لگائى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم آگے نكل گئے اور فرمانے لگے: يہ ا سكا بدلہ ہے "

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى بيوياں اس گھر ميں اكٹھى ہوتيں جس گھر ميں آپ نے رات بسر كرنا ہوتى تھى، اور بعض اوقات تو آپ سب كے ساتھ رات كا كھانا تناول كيا كرتے اور پھر ہر بيوى اپنے گھر چلى جاتى، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيوى كے ساتھ ايك ہى كپڑے ميں سويا كرتے، آپ اپنى اوپر والى چادر اتار ديتے اور صرف تہہ بند ميں آرام فرماتے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب عشاء كى نماز ادا فرما كر اپنے گھر تشريف لاتے تو سونے سے قبل اپنى بيوى سے بات چيت كيا كرتے، جس سے وہ بيوى ميں انس و محبت پيدا كرتے تھے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا تمہارے ليے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ ہے الاحزاب ( 21 ). انتھى

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 242 ).

اور پھر آپ ذرا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر غور تو كريں كہ:

" تم ميں كوئى ايك اٹھ كر اپنى بيوى كو ايسے مارتا ہے جيسے نوكر و غلام كو مارا جاتا ہے، اور پھر ہو سكتا ہے وہ دن كے اخر ميں اسى بيوى كے ساتھ مجامعت بھى كرنا شروع كر دے !! "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4942 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2855 ).

آپ كو علم ہونا چاہيے كہ يہ فطرتى طور پر بھى بہت شنيع و قبيح اور برى بات ہے كہ آپ سے اپنى بيوى سے برا سلوك كريں، اور پھر يہ سوء معاشرت بھى كہلاتى ہے كہ آپ بيوى كو تو اس كا حق نہ ديں، ليكن آپ اس سے اپنے حقوق كا مطالبہ كريں كہ وہ آپ كو عفت مہيا كرے، اور آپ كى حقوق كى ادائيگى كرتى رہے.

حالانكہ حق مجامعت تو بيوى اور خاوند كا مشتركہ حق ہے، جس طرح بيوى پر واجب ہے كہ وہ اپنے خاوند كے حقوق كى ادائيگى كرے اور ان كا خيال ركھے، اسى طرح آپ پر بھى واجب اور ضرورى ہے كہ آپ بھى بيوى كے حقوق كى ادائيگى كا خيال ركھيں، اور اس سلسلہ ميں آپ پر واجب ہے كہ آپ ہر اس چيز اور كام سے اجتناب كريں جس سے وہ نفرت كرتى ہے چاہے وہ فعل ہو يا قول.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كے سياق ميں كسى عقل و دانش ركھنے والے شخص سے ان دونوں امور كا وقوع ہونا دور كى بات ہے كہ: وہ اپنى بيوى كو زدكوب كرنے ميں بھى مبالغہ سے كام ليتا ہو، اور پھر باقى دن كے حصہ يا رات ميں ميں بيوى سے مجامعت و مباشرت كرتا پھرے.

حالانكہ مجامعت و مضاجعت اور مباشرت تو اسى وقت اچھى ہوتى ہے جب اس ميں نفس رغبت ركھتا ہو اور ميلان نفس بھى پايا جائے، اور جب كسى كو زدكوب كيا جائے تو وہ زدكوب كرنے والے شخص سے نفرت كرتا ہے.

اس ليے يہاں اس كى مذمت كى طرف اشارہ كيا گيا ہے اور اگر اس كے بغير كوئى چارہ نہ ہو تو پھر ہلكى سى ضرب لگانى چاہيے، وہ اس طرح كہ جس سے مكمل نفرت حاصل نہ ہوتى ہو، اور نہ تو وہ زدكوب كرنے ميں افراط سے كام لے اور نہ ہى ادب سكھانے ميں " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 303 ).

اور اس سلسلہ ميں آپ كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ پايا جاتا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے گھر والوں كے ليے سب لوگوں سے بہتر تھے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوى بعض اوقات انہيں ناراض بھى كرتيں اور انہيں چھوڑ بھى ديتيں ليكن پھر بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صبر كرتے ہوئے انہيں معاف و درگزر فرماتے تھے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے بہتر ہے اور ميں تم ميں سے اپنے گھر والوں كے ليے سب سے بہتر ہوں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3895 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1977 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" عورتوں كے ساتھ اچھائى كا معاملہ كيا كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3331 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1468 ).

عمر رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں كہ:

" ہم قريش والے عورتوں پر غالب رہتے تھے، اور جب ہم مدينہ ميں آئے تو ہم نے ايسے لوگ پائے جن پر ان كى عورتيں حاوى تھيں، تو ہمارى عورتوں نے بھى ان كى عورتوں سے سيكھنا شروع كر ديا.

ميرا گھر عوالى ميں بنو اميہ بن زيد كے علاقے تھا ميں ايك دن اپنى بيوى پر ناراض ہوا تو وہ ميرے آگے بولنے لگى اور جواب دينے لگى تو ميں نے اسے اپنے آگے بولنے سے منع كيا تو وہ كہنے لگى: تم مجھے اپنے سامنے بولنے اور جواب دينے سے روك رہے ہو؛

اللہ كى قسم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوياں بھى آپ سے بات چيت كرتى اور جواب ديتى ہيں، اور ان ميں سے كوئى ايك تو صبح سے لے كر رات تك نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بولتى بھى نہيں!!

تو ميں اپنى بيٹى حفصہ كے پاس گيا اور جا كر اسے كہنے لگا:

كيا تم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بولتى اور ان كا جواب بھى ديتى ہو ؟

اس نے جواب ديا: جى ہاں!!

ميں نے اس سے كہا: كيا تم ميں سے كوئى ايك صبح سے لے كر رات تك نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بولنا بھى چھوڑ ديتى ہے !!

جو اس نے جواب ديا: جى ہاں!!

ميں نے كہا: تم ميں سے جس نے بھى ايسا كيا وہ ذليل و رسوا ہوئى اور خسارہ اٹھايا؛ كيا تمہيں اس بات كا ڈر نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس پر ناراض ہونے كى وجہ سے اللہ ناراض ہو جائے، اور وہ تباہ و برباد ہو جائے؟!

تم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے مت بولا كرو اور ان سے كچھ بھى طلب مت كرو، تمہيں جو ضرورت ہو مجھ سے مانگا كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2468 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1479 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.

اس ليے آدمى كو اپنى بيوى بچوں كے ساتھ آسانى برتنے اور نرمى كرنے والا ہونا چاہيے، اور بيوى كے ليے اپنى رائے كا اظہار كرنے ميں كوئى حرج محسوس نہيں كرنا چاہيے، يا كہ كہ وہ كسى ايسى چيز كى طرف سبقت لے جائے جس ميں كوئى گناہ نہ ہو تو اس ميں حرج محسوس نہ كرے بلكہ وہ خوش ہو كہ اس كى بيوى نے كيا ہے.

كيونكہ عورتيں تو مردوں كى طرح ہى ہيں اور كتنى ہى عورتيں ہيں جن كى رائے صحيح اور سليم ہوتى ہے، اور ان كا موقف بھى صحيح ہوتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب