جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا بيوى اجازت كے بغير خاوند كا مال لے سكتى ہے ؟

تاریخ اشاعت : 29-12-2011

مشاہدات : 5003

سوال

كيا بيوى خاوند كى اجازت كے بغير اس كا مال لے سكتى ہے، اور اگر لے ليا ہو تو اس كا كفارہ كيا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيوى كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے مال ميں سے كچھ بھى لينا جائز نہيں، ليكن اگر خاوند اس كے اخراجات اور نان و نفقہ ميں كوتاہى كرتا ہو، تو پھر بيوى كے ليے بہتر طريقہ سے اپنے اور اولاد كے ليے كافى رقم لے سكتى ہے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہند بنت عتبہ رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا.

ہند رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس آ كر عرض كرنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا خاوند ابو سفيان اس اور اس كى اولاد پر خرچ كرنے ميں كوتاہى سے كام ليتا ہے، صرف وہى كچھ جو كہ ميں اس كى اجازت كے بغير لے ليتى ہوں.

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" تم اچھے طريقہ سے اتنا كچھ لے ليا جو تمہيں اور تمہارى اولاد كے ليے كافى ہو "

اگر ايسا واقع ہو جائے مندرجہ بالا حديث كى بنا پر اس كا كوئى كفارہ نہيں، ليكن اگر خاوند اخراجات ميں كوتاہى كا مرتكب نہيں ہو رہا اور اس كے باوجود بيوى خاوند كى اجازت كے بغير كچھ رقم لے ليتى ہے تو وہ رقم بيوى كو واپس كرنا ہوگى، اگر بيوى كو خدشہ ہو كہ اگر خاوند كو علم ہو گيا تو وہ اس كے مشكلات پيدا كر ديگا تو وہ خاوند كى لاعلمى ميں ہى پيسے واپس كر سكتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور انكى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء سعودى عرب.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 167 )