جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

یھودی سائلہ کے دل میں اسلام کا پیداہونا

تاریخ اشاعت : 30-06-2003

مشاہدات : 13499

سوال

میرا ایک مشکل سا سوال ہے لیکن صرف ايک ہی خواہش ہے کہ میرے سوال کاجواب ملنا چاہیے ۔
میں روس سے تعلق رکھنے والی یھودی عورت ہوں ایک برس قبل میرے ایک مسلمان نوجوان سے تعارف ہوا اورجیسے جیسے ہمارا تعلق گہرا ہوتا گيا اورہمیں پیشس آنےوالی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا گیا ، ان کا سبب دین یا عادات و تقالید نہیں ۔
ہم آپس میں بہت کرتے ہیں اور موضوع یہ ہے کہ کیا وہ مجھ سے شادی کرسکتا ہے کہ نہیں ؟
وہ ایک اچھا مسلمان ہے اورمذھبی خاندان سے تعلق رکھتا ہے اورمیں بھی اس کے دین اورخاندان و گھروالوں کو پسند کرتی ہوں ۔
میں ایک ایسے بند شہرمیں پیدا ہوئ ہوں جہاں پرکسی بھی دین کو پیش کرنے کا کوئ موقع نہيں یہ سب کچھ کرنا ممنوع ہے ، جب میں امریکہ آئ تومجھ پریہ منکشف ہوا کہ میرے اعتقادات یھودیت کے موافق نہيں تواس نوجوان سے تعارف کے بعد میں نے اسلام کا بہت زیادہ مطالعہ کرنا شروع کردیا اسی طرح دو اورمسلمان لڑکوں اورلڑکیوں سے تعارف کے بعد یہ سلسلہ زيادہ چل نکلا اورقرآن مجید کا مطالعہ بھی کیا تومیرے اندریہ شعور اوربڑھ زیادہ ہوگیا کہ میں ایک اچھی مسلمان بن سکتی ہوں ۔
اب میں کسی ایسے مدرسے یا سکول جانا چاہتی ہوں جہاں عربی کے ساتھ ساتھ اسلام ثقافت اورتعلیمات بھی سیکھی جاسکے
میں نے مسجد میں بھی رابطہ کیا اوروہاں جانے پربھی تیار ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ آیا وہ یھودیت کےعلاوہ باقی سب ادیان کو چھوڑ کرمسلمان ہونے والوں کی طرح مجھےبھی ایک جدید مسلمان بہن کی شکل میں قبول کرلیں گے ؟
اس لیے کہ یھودیوں اورمسلمانوں کے درمیان ہمیشہ سےاختلاف رہا ہے میرے خیال کے مطابق ان کے درمیان کبھی بھی امن پیدا نہیں ہوسکتا ۔
میں اپنی روسی زبان میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ مجھے راہ حق کی طرف لےجاۓ اورحق کی راہنما‏ئ کرے تا کہ میں ایمان حاصل کرسکوں توآپ سے میری گزارش ہے کہ آپ میرے ساتھ تعاون فرمائيں تا کہ میں اپنے سوال کا جواب حاصل کرسکوں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

( میرے اندریہ قوی شعور ہے کہ میں ایک اچھی مسلمان ثابت ہوسکتی ہوں ) یہ خوشگوارعبارت آپ کی ای میل کی ہے جوکہ حق کوتلاش کرنے میں باریک بینی اوردقت نظری اوربہت اچھے تجربات کے شعورکی غماز ہے ۔

میں اللہ تعالی سے ( روسی زبان میں ) دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے راہ حق کی ھدایت نصیب فرماۓ : یہ ایک اورعبارت جوآپ نے سوال کے آخرمیں لکھی ہے جس سےمسلمان قاری اس عورت کی حالت کوسمجھ سکتا ہےجو داعی کی دعوت کو جاننے اوراسے قبول کرنے کے بعد اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوئ اوراس اللہ عزوجل سے سیدھے اورقوی دین کی ھدایت طلب کررہی ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورجب میرے بندے میرے بارے میں آپ سےسوال کریں توآپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہرپکارنے والے کی پکار کوجب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں ، اس لیے لوگوں کوبھی چاہیۓ کہ وہ میری بات مانیں اورمجھ پرایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائ کا باعث ہے البقرۃ ( 186 ) ۔

اورآپ اس شرح صدر کے ساتھ خوش ہوجائيں جواپنے اندر محسوس کرتی ہیں کہ اسلام کے لیے کہ آپ کا سینہ کھل چکا ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی نے اپنے کتاب عزيز میں کچھ اس طرح فرمایا ہے :

توجس شخص کوبھی اللہ تعالی ھدایت دینا چاہے اس کے سینہ کواسلام کے لیے کشادہ کردیتا ہے ،اورجس کوبے راہ رکھنا چاہے اس کے سینہ کوبہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئ آسمان میں چڑھتا ہے الانعام ( 125 ) ۔

آپ کے علم میں بھی ہونا چاہیے اورجان بھی لیں کہ دین کی سمجھ رکھنے والے مسلمانوں کے نزدیک اسلام قبول کرنے والے نۓ بہن بھائیوں کے لیے کوئ بھی کسی قسم کی نفرت یا فرق نہیں چاہے وہ دین اسلام قبول کرنے سے قبل جس مذھب سے بھی تعلق رکھنے والے ہوں ۔

انہوں نے یھودیت سے اسلام قبول کیا ہویا پھر عیسائیت کوترک کرکے ان میں کسی قسم کا فرق یا تمیز نہیں کی جاتی ، ہم ذیل میں ان مرد اورعورت کی مثال پیش کرتے ہیں جو یھودیت کوچھوڑ کر اسلام قبول کرتے ہیں ، ان میں سے ایک توابویوسف عبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ ہیں :

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

عبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی توعبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ اورکہنے لگے :

میں آپ سے تین چيزیں پوچھوں گا جنہیں نبی کے علاوہ کوئ اورنہیں جانتا ، عبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ نے تین سوال کیے :

سب سے پہلی قیامت کی نشانی کیا ہے ؟

جنتیوں کا سب سے پہلاکھانا کیا ہوگا ؟

بچے کووالد کی طرف ( شکل و شباہت میں ) کون سی چيز لےجاتی ہے اوراپنے ماموں کی طرف کون سی چيز کھینچ لے جاتی ہے ؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشادفرمایا :

مجھے ابھی ابھی جبریل علیہ السلام نے ان کے متعلق بتایا ہے ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے یہ فرشتہ تویھودیوں کادشمن ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : قیامت کی سب سے پہلی نشانی یہ ہوگی لوگوں کو ایک آگ مشرق کی جانب سے مغرب کی جانب دھکیل کرلے جاۓ گی ۔

اوراہل جنت کا سب سے پہلاکھانا اورمہان نوازی مچھلی کی کلیجی ہوگی ، اوربچے کا والد کے مشابہ ہونے میں یہ ہے کہ جب مرد عورت سے جماع کرتا ہے تواگرخاوند کی منی عورت سے سبقت لے جاۓ تواس کی طرف مشابہت ہوتی ہے ، اوراگر عورت کی منی سبقت لے جاۓ توعورت سے مشابہت ہوتی ہے توعبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3082 ) ۔

اوربخاری کی دوسری روایت میں ہے کہ :

عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ آۓ اورانہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اورحق لاۓ ہیں اوریھودی اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ میں ان کا سردار اورسردار کا بیٹا بھی ہوں اوران میں سے زيادہ علم رکھتا ہوں اورسب سے زیادہ علم رکھنے والے کا بیٹا بھی ہوں آپ یھودیوں کوبلائيں اورقبل اس کے وہ میرے اسلام کے متعلق جان لیں آپ انہیں میرے متعلق پوچھیں اس لیے کہ اگرانہيں میرے اسلام قبول کرنے کا علم ہوگیا تووہ میرے بارہ میں وہ باتیں کریں گے جو میرے اندرنہیں ہيں ۔

لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے طرف پیغام بھیجا یھودی آۓ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس داخل ہوۓ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سوال کیا :

اے یھودیو ! تمہارے لیے افسوس کا مقام ہے اورہلاکت ہے اللہ تعالی سے ڈر جاؤ اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئ معبود برحق نہیں تمہیں اس کا علم ہے کہ میں اللہ تعالی کاسچا رسول ہوں اورتمہارے پاس حق ہی لے کر آیا ہوں لھذا اسلام قبول کرلو ، یھودیوں نے جواب میں کہا ہميں کوئ علم نہيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کوتین باردھرایا اورپھرفرمانے لگے :

تم میں عبداللہ بن سلام کون اورکیسا شخص ہے ؟ انہوں نےجواب دیا وہ ہمارے سردار اور ہمارے سردار کا بیٹا ہے ، ہم میں سب سے زیادہ علم رکھتا اورسب سے زیادہ عالم کا بیٹا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب مجھے یہ بتاؤکہ اگر وہ اسلام قبول کر لے تو ؟ انہوں نے جواب دیا اللہ بچاۓ وہ اسلام قبول نہیں کرسکتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن سلام ذرا ان کے پاس باہر توآؤ توعبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ باہر تشریف لاۓ اورکہنے لگے :

اے یھودیو! اللہ تعالی سے ڈر جاؤ اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئ اورعبادت کے لائق نہيں وہ ہی معبود برحق ہے بلاشک تمہیں اس بات کا علم ہے کہ وہ اللہ تعالی کے رسول ہیں اورحق لاۓ ہيں ، تویھودی کہنے لگے توجھوٹ بولتا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان یھودیوں کونکال دیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3621 ) ۔

تواس شخص کویھودی الاصل ہونے کے باوجود اسلام قبول کرکے موت سےقبل جنت کی خوشخبری حاصل کرنے سے کسی نے نہیں روکا ، سعدبن ابی وقاص رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں زمین پرچلنے والے کسی شخص کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہیں سنا کہ اسے آپ نے یہ کہا ہو وہ جنتی ہے لیکن آپ نے عبداللہ بن سلام رضي اللہ تعالی عنہ کے بارہ میں فرمایا کہ وہ جنتی ہے ۔

وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ان کے بارہ میں ہی یہ آیت نازل ہوئ اوربنی اسرائیل میں سے ہی ایک نے اس طرح کی گواہی دی ۔۔۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3528 ) ۔

اوروہ عورت جویھودیت ترک کرکے اللہ تعالی رب ہونے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم پراس کے رسول ہونے پرایمان لائ وہ خیبرکے یھود کے تعلق رکھنے والی صفیہ بنت حییی بنت اخطب رضي اللہ تعالی عنہا ہیں ۔

اوریہی وہ یھودی عورت بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بنی اور ام المومنین صفیہ رضي اللہ تعالی عنہا کے نام سے جانا جانے لگا اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

مومنوں کی جانوں سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے اولی ہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مومنوں کی مائيں ہيں ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اورمدینہ کے درمیان تین روز تک قیام فرمایا جس میں وہ صفیہ بنت حیی رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ رشتہ ازواج میں منسلک ہوۓ اورسب مسلمانوں کواپنے ولیمہ کی دعوت دی ۔

تومسلمان آپس میں کہنے لگے کہ آیا یہ امہات المومنین میں سے ایک ہیں یا کہ ان کی باندی ، پھرکہنے لگے کہ اگر انہوں نے پردہ کرلیا توامہات المومنین میں ہوں گی اوراگرپردہ نہیں کریں گی تو ان کی باندی اورلونڈی ہونگی ، توجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا توصفیہ رضي اللہ تعالی عنہا کواپنے پیچھے سوار کیا اورلوگوں اورصفیہ رضي اللہ تعالی عنہا کے درمیان پردہ کردیا گیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4762 ) ۔

اوروہ ام المومنین صفیہ رضي اللہ تعالی عنہا ہی ہیں جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خصوصی طورپراعتکاف والی جگہ سے نکل کران کے ساتھ گھرتک گۓ ( حالانکہ اعتکاف کی حالت میں کسی کے لیے یہ جائزنہيں کہ وہ اپنی اعتکاف والی جگہ سے بغیر کسی ضرورت کے باہرنکلے ) ۔

علی بن حسین رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المومنین صفیہ رضي اللہ تعالی عنہا نے انہيں بتایا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زيارت کے لیے اعتکاف کے دوران رمضان کے آخری عشرہ میں ان کے پاس مسجد میں آئيں اورکچھ دیر بیٹھی باتیں کرتی رہیں پھراٹھ کرجانے لگیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ انہیں واپس پہنچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوۓ ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 ) ۔

اورایک دوسری روایت میں ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے اوران کےپاس ازواج مطہرات بھی آئيں ہوئيں تھیں تووہ سب چلی گئيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضي اللہ تعالی عنہا سے فرمایا آپ جلدی نہ کریں میں بھی آپ کے ساتھ ہی جاؤں گا اورصفیہ رضي اللہ تعالی عنہا کا گھرداراسامہ میں تھا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گھر کی جانب نکلے ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 1897 ) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بہت زیادہ خیال رکھتے اور ان کے ساتھ شفقت ومہربانی کرتے تھے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کااپنی زوجہ صفیہ رضي اللہ تعالی عنہا کے ساتھ سفر میں معاملات کرنے کا بیان کرتے ہیں کہ :

میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسمل کودیکھا آپ صفیہ رضي اللہ تعالی عنہا کے لیے اپنے پیچھے چادر جمع کرکے رکھتے اوران کے اونٹ کے پاس بیٹھ کراپنا گھٹنا کھڑا کرتے اورصفیہ رضي اللہ تعالی عنہا اپناپاؤں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے پررکھ کراونٹ پرسوار ہوتی تھیں ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 2081 ) ۔

اوپربیان کیے گۓ کچھ اس طرح اوربھی بہت سی مثالیں اورنمونے ملتے ہیں جس یہ ظاہراورواضح ہوتا ہے کہ دین اسلام میں ایک جدید اورنۓ مسلمان کی کیا قدرو قیمت اور‏عزت ہے چاہے وہ پہلے کسی بھی دین سے تعلق رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو وہ یھودی ہویا عیسائ یا کسی اوردین سے تعلق رکھنے والا ہو ۔

اوراگرکچھ مسلمانوں کی طرف سے کوئ تنگی یا پھرروکاوٹ کسی اسلام قبول کرنے والے یھود ی الاصل کوآئ بھی ہوتویہ جہالت اورکمی کوتاہی کی بنا پر ہے نہ کہ اسلام کی وجہ سے بلکہ اسلام کا موقف توآپ نے جان ہی لیا ہے ، لھذا آپ قبول اسلام میں جلدی کریں اورفوری طورپرکلمہ پکاراٹھیں ، ہم اس دین کے تحت آپ کی سعادت مندزندگی کے خواہشمند ہیں ۔

باقی ایک ملاحظہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی بیان کردیا جاۓ جس کا ذکر آپ نے اپنے خط میں بھی کیا ہے ۔

آپ کا اس مسلمان نوجوان کے ساتھ تعلق اس وقت تک شرعی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ نکاح اورشادی کے ساتھ نہ قائم ہو اللہ تعالی بھی نکاح کے طریقہ کوپسند فرماتا ہے جوکہ اس نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیا ہے تا کہ مرد اورعورت آپس میں تعلق قائم کریں اس لیے آپ نکاح کے بغیر اس سے تعلق رکھنے سے گريز کریں جوکہ ناجائز ہیں ۔

اورہم سمجھتے ہيں کہ آپ نے جوحالات بیان کیے ہیں ان میں آپ کا اسلام قبول کرنا اورگناہوں سے توبہ آپ کے لیے سب راستے کھول د ےگا اوراس مسلمان کے ساتھ شرعی تعلقات قائم کرنے میں بھی آسانی پیدا کرے گا ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کوحق قبول کرنے اوراس پر ثابت قدمی کی توفیق عطافرماۓ اورآپ کے لیے دنبیا میں خیرو بھلائ میں جلدی کرے اورآپ کو اس سے نوازے ، اور آخرت میں آپ کوکامیابی اورجنت عطا فرماۓ آمین یا رب العالمین ۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہی سیدھے راہ کی راہنمائ کرنے والا ہے

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد