جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

دینی التزام کرنے والوں کواصولی بنیاد پرست اورحد سے بڑھے ہوۓ کہنے کا حکم

سوال

ذرائع ابلاغ میں دینی التزام کرنے والے نوجوانوں کو بنیاد پرست ، اصولی اوریا پھرشدت پسند کہا جاتا ہے اس کے بارہ میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہرحال میں یہ کہنا غلط ہے بلکہ یہ الفاظ تومشرق ومغرب سے یھودیوں اورعیسائیوں اورکیمونسٹوں وغیرہ کی جانب سے وارد ہوۓ ہیں جودعوت الی اللہ اوراس دعوت کوپھیلانے والوں سے لوگوں کونفرت دلانے کی کوشش کرنے میں لگے ہوۓ ہیں ۔

وہ اصولی اوربنیاد پرست ، حدسے بڑھے ہوۓ اوراس کے‏علاوہ مختلف قسم کے القابات دے کردعوت کونقصان پہنچانا چاہتے ہيں ۔

بلا شبہ دعوت الی اللہ ہی سب رسل وانبیاء کا دین اورکام اوران کامذھب اورطریقہ رہا ہے ، لھذا اہل علم پرواجب ہے وہ دعوت الی اللہ کا کام کریں اوراس ميں پوری تگ ودو کریں ، اورنوجوانوں پرلازم اورضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیارکریں اورحق پرثابت قدم رہتے ہوۓ‌ اس کا التزام کريں ۔

اس میں نہ تو انہیں غلو سے کام لینا چاہيۓ اورنہ ہی جوروجفا سے ، بعض نوجوان غلوسے کام لیتے ہيں جس کی بنا پران سے کچھ غلط اشیاء کا ارتکاب اور نقص علم کا وقوع ہوتا ہے جس کی بنا پروہ جفا کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

لیکن نوجوانوں اوردوسرے علماء کرام پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیارکریں ، اوردلائل کے ساتھ حق کے متلاشی رہیں ، اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پرعمل پیرا ہوں ۔

انہیں چاہیے کہ وہ غلوو بدعات اورافراط سے بچنے کی کوشش کریں اورجیسا کہ ان پریہ بھی ضروری ہے کہ وہ جھالت اورکمی و کوتاہی سے بچیں ، یہاں پرایک بات یاد رہے کہ ان میں سے کوئ معصوم نہيں ، کچھ لوگوں سے کمی وزيادتی و نقصان ہوسکتا ہے لیکن یہ سب کے لیے کوئ عیب والی بات نہیں لیکن عیب صرف اس میں ہے جواس کا مرتکب ہوتا ہے ۔

لیکن اللہ کے دشمن یھودی ونصاری وغیرہ اوران کےطریقے پرچلنے والوں نے دعوت اسلام کومٹانے اوردبانےکا اسے ایک وسیلہ بنا لیا ہے کہ وہ دعوت دینے والوں کوبیاد پرست اوراصولی اور شدت پسند جیسے القابات دیتے ہیں ۔

اصولی اوربنیاد پرست کا معنی کیا ہے :

اگرتواس کا معنی یہ ہوکہ : وہ لوگ اصول اسلام اوراللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماین پرعمل پیرا ہونے والے ہيں تو پھریہ ان کی مدح ہے نہ کہ مذمت ، کتاب وسنت کے اصول کی پیروی کرنا مدح و تعریف والا کام ہے کوئ‏ مذمت نہيں ۔

مذمت اورحد سے تجاوز تو یہ ہے کہ یا توغلوکرکے حد سے تجاوزکیا جاۓ یا پھر ظلم وجفا کرکے جو کہ ایک مذموم کام ہے ، لیکن ایک ایسا شخص جودینی امورکا التزام کرتا اورکتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل پیرا ہو اس میں ایسا کام کو‏ئ عیب نہیں بلکہ یہ تومدح وتعریف اورکمال کی نشانی ہے ۔

اورپھرسب سے بڑھ کریہی چيزتوطالب علموں اوردعوت کا کام کرنے والوں پر واجب اورضروری ہے کہ وہ کتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا التزام کرتے ہوۓ اس پرعمل پیرا ہوں ، انہیں چاہیے کہ وہ اصول فقہ اوراصول عقیدہ اورمصطلح جس سے استدلال اوردلائل کوحجت مانا جاسکتا ہے تواس لیے ضروری ہے کہ ان کے ہاں کچھ ایسے اصول و ضوابط ہونے چاہييں جن پراعتماد کیا جاسکے ، تودعاۃ کواصولی اوربنیاد پرست کہناایک مجمل کلام ہے جس کی مذمت اورعیب جو‏ئ اورنفرت کے علاوہ کو‏ئ حقیقت نہیں ، تواصولیت ایک مذمت نہيں لیکن حقیقت میں یہ مدح وتعریف ہے ۔

تواگرایک طالب علم اصولوں پرعمل کرتا اوران کا لحاظ رکھتا ہے کتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل علم نے جوکچھ مقرر کیا ہے اس پراصولی طور پرعمل پیرا ہوتا ہے تویہ کوئ عیب والی بات نہیں ، لیکن بدعات اورغلو وزیادتی ہی اصل میں عیب ہے یاپھرجہالت اورعمل میں کمی کوتاھی بھی اصل میں عیب ہے ۔

لھذا دعاۃ پرواجب ہے کہ وہ شرعی اصول کا التزام کریں اور اس میں میانہ روی اختیارکریں اس لیے کہ اللہ تعالی نے انہیں درمیانی امت قرار دیا ہے تواس لیے دعاۃ کو غلوو جفا کا درمیانی طریقہ اختیار کرنا چاہیۓ جس میں نہ توافراط ہواور نہ تفریط ۔

حق پراستقامت اختیارکريں اوراس پرشرعی دلا‏ئل کے ثبوت دیں ، نہ تواس میں افراط اورغلوہے اورنہ ہی جفا اورتفریط لیکن میانہ روی پائ جاۓ جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے .

ماخذ: مجموع فتاوی ومقالات متنوعہ تالیف : فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ ص ( 233 ) ۔