جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

بھابھى كا ديور كے سامنے آنا

تاریخ اشاعت : 19-01-2009

مشاہدات : 13956

سوال

ميرے بھائى كى تقريبا دو برس قبل شادى ہوئى ہے، اور اس مدت كے درميان وہ اپنى بيوى كو اپنے بھائيوں كے سامنے بھى نہيں آنے ديتا، چاہے باپرد ہو كر ہى، اور جب بھائى اسے ملنے آتے ہيں تو پھر بھى وہ اپنى بيوى كو ان سے بات چيت بھى نہيں كرنے ديتا، اور اب تك ہم نہ تو اپنى بھابھى كى شكل سے واقف ہيں، اور نہ ہى ہم نے اس سے كوئى بات بھى نہيں كى، سوال يہ ہے كہ آيا شريعت ميں ايسا كرنا جائز ہے، يا كہ اس ميں كچھ تشدد اور سختى پائى جاتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت پر واجب ہے كہ وہ اجنبى اور غير محرم مردوں سے اپنا سارا جسم چھپا كر ركھے، اور اس ميں چہرہ بھى شامل ہے، اور حتمى طور پر تو خاوند كے رشتہ دار مردوں سے پردہ ضرورى ہے، اور يہ عمل اس كے برعكس ہے جو اكثر متساہل قسم كے لوگ ان ايام ميں كر رہے ہيں.

حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جب ايك صحابى نے خاوند كے رشتہ دار مرد كا بيوى كے پاس آنے كے متعلق دريافت كيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” ديور تو موت ہے ”

يعنى خاوند كا قريبى رشتہ دار مرد تو موت كى طرح ہے، تو پھر واجب يہى ہے كہ خاوند كے رشتہ دار مردوں سے اختياط برتى جائے، اور اس ميں خاوند كے بھائى بھى شامل ہيں، كيونكہ اس معاملہ ميں لوگ بہت سستى كرتے ہيں.

آپ كے بھائى نے آپ كى بھابھى كو آپ كے سامنے آنے سےمنع كر كے بہت اچھا عمل كيا ہے، اور آپ كى بھابھى نے بھى اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم اور اپنے خاوند كى بات تسليم كر كے اچھا عمل كيا ہے، يہ اپنى جانب سے لازم كرنا اور سختى و شدت نہيں، بلكہ يہ تو اللہ تعالى كے حكم كو تسليم كرنا اور ماننا ہے، اور بھائيوں كے ليے اپنى بھابھى كو ديكھنا كوئى ضرورى نہيں، چہ جائيكہ اس كے ساتھ بيٹھ كر اس سے بات چيت اور ہنسى مذاق كيا جائے!!.

اور اہل علم ميں سے جس نے بھى عورت كو اس كے خاوند كے قريبى رشتہ دار مردوں كے ساتھ بيٹھنے كى اجازت دى ہے وہ اس شرط پر ہے كہ اگر مجلس ميں كوئى شك و شبہ نہ ہو، يا پھر ان دونوں كے مابين حرام خلوت نہ ہو، يا پھر دونوں جانب سے حرام نظر اور ديكھنا نہ پايا جائے، افسوس كے ساتھ يہ كہنا پڑتا ہے كہ آج كل اكثر لوگوں كى مجالس ت وانہى اشياء پر مشتمل ہوتى ہيں.

اور اگر مندرجہ بالا برائيوں سے مجلس خالى ہو اور عورت مكمل پردہ كر كے آئے تو پھر اس كے ليے وہاں بيٹھنا اور كلام كرنا اس شرط پر جائز ہے كہ وہ بات ميں نرم لہجہ اختيار نہ كرے اور لہكا لہكا كر بات مت كرے ليكن پھر بھى افضل اور زيادہ كامل اور احتياط اسى ميں ہے كہ وہ ايسا نہ كرے، اور يہى آپ كے بھائى نے بھى كيا ہے، حتى كہ دل پاك صاف رہيں اور دل ان راہوں سے صاف رہے جن سے شيطان داخل ہوتا ہے.

اور ايسا نہ نہيں ہونا چاہيے كہ آپ كے بھائى كے اس اچھے فعل كى بنا پر آپ كے تعلقات خراب ہو جائيں، اور آپ كى بيويوں كے آپس ميں تعلقات اچھے نہ رہيں، وہ دونوں دين اور خير و بھلائى پر ہيں، اور آپ كو چاہيے كہ آپ ان كے قريب ہوں، اور ان دونوں كے طريقہ سے آپ لوگوں كے ساتھ تعلقات بنائيں.

اور يہ علم ميں ركھيں كہ بھائيوں كا اپنے بھائى كو صرف اس بنا پر ڈانٹنا اور اس سے ناراض ہونا كہ اس نے اپنى بيوى كو پردہ كروا ليا ہے، يا پھر وہ اسے ان كے ساتھ نہيں بيٹھنے ديتا اور اس سے شك ميں پڑنا ـ ان شاء اللہ ـ آپ ايسے لوگوں ميں شامل نہيں ہيں، ليكن شيطان بعض اوقات انسان كو بہكا ديتا ہے، اور اس كے ليے غلط چيز كو مزين كر كے دكھاتا ہے، تو اس طرح اس كے سامنے نيكى كو برائى بنا كر ركھ ديتا ہے، اور برائى كو نيكى نبا كر دكھاتا ہے، اور پردہ اور شرم و حيا كوتشدد اور سختى بنا كر ركھ ديتا ہے، اور بےپردگى اور بےشرمى كو ترقى اور ثقافت بنا كر پيش كرتا ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے دلوں اور ہمارے اعضاء كو پاك صاف كر دے، اور آپ سب كو خير و بھلائى پر جمع كرے، اور آپ كے دلوں ميں محبت و بھائى چارہ اور الفت پيدا كر دے، اور آپ كو لوگوں كے ليے بہترين نمونہ بنا دے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (13261 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب