جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

سارى رضى اللہ عنہا اپنى قدر و منزلت كے باوجود ہاجرہ رضى اللہ تعالى عنہا سے غيرت ميں كيوں آئيں

تاریخ اشاعت : 21-04-2012

مشاہدات : 8105

سوال

جب ہاجرہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اسماعيل عليہ السلام كو جنم ديا تو كيا سارہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اس سے غيرت محسوس كى تھى ؟
اگر جواب اثبات ميں ہو تو پھر سوال يہ ہے كہ سارہ رضى اللہ تعالى عنہا جيسى قدر و منزلت اور مقام و مرتبہ والى عورت نے غيرت كيوں محسوس كي ؟
اور كيا ان كى غيرت محسوس كرنے كى بنا پر ہى ابراہيم عليہ السلام كو حكم ديا گيا تھا كہ وہ ہاجرہ اور اسماعيل عليہ السلام كو صحراء ميں لے جائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت كا اپنى سوكن سے غيرت كھانا ايك طبعى چيز ہے اور يہ عورتوں كى سرشت ميں داخل ہے، اس ميں عورت كا اپنا كوئى دخل شامل نہيں، اسى ليے اس چيز پر اس كا مؤاخذہ صرف اسى صورت ميں ہوگا جب وہ اس سے ميں زيادتى كرتى كرے اور اللہ كى جانب سے حرام كردہ ظلم كا ارتكاب كرتے ہوئے اپنى بہن پر ظلم كرے، اور اس طرح وہ اس كى غيب و چغلى كى مرتكب ٹھرے، يا پھر اس كى غيرت كے نتيجہ ميں طلاق حاصل كرے، يا سوكن كے بارہ ميں كوئى اور سازش وغيرہ كى مرتكب ہو.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اصل ميں غيرت عورتوں كے ہاں ايسى چيز نہيں كہ اسے خود حاصل كيا جا سكتا ہو، ليكن جب وہ اس ميں افراط و زيادتى كا شكار ہو جائے تو يہ قابل ملامت ہوگى، اس كا ضابطہ درج ذيل مرفوع حديث ميں بيان ہوا ہے:

جابر بن عتيك انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" غيرت ميں كچھ غيرت تو ايسى ہے كہ اللہ تعالى اس غيرت كو پسند فرماتا ہے، اور كچھ غيرت ايسى ہے جو اللہ تعالى كو ناپسند ہے اور اسے ناراض كر ديتى ہے:

اللہ تعالى كو وہ غيرت پسند ہے جو شك و تردد ميں ہو اور جو غيرت اللہ كو ناراض كر ديتى ہے وہ شك و تردد كے علاوہ كسى اور ميں ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2511 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 7 / 80 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس ليے اگر خاوند اور بيوى كى غيرت نيچرل اور طبعى ہو جس سے كوئى عورت بچ نہيں سكتى تو اس ميں معذور ہو گى جب تك وہ حد سے تجاوز نہيں كرتى، يعنى جب تك وہ حد سے تجاوز كرتے ہوئے حرام قول و فعل كى مرتكب نہ ہو، اس ليے سلف صالحين كى بيويوں سے اس سلسلہ ميں غيرت كے جو واقعات آتے ہيں انہيں اسى غيرت پر محمول كيا جائيگا "

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 326 ).

اور ابن مفلح رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" طبرى وغيرہ دوسرے علماء كرام كا قول ہے: عورتوں كى وہ غيرت قابل گرفت نہيں جو ان ميں جبلى طور پر پائى جاتى ہو "

ديكھيں: الآداب الشرعيۃ ( 1 / 248 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا اپنى ايك سوكن كے برتن توڑنے والى حديث كى شرح كرتے ہوئے لكھا ہے:

" سب شارحين حديث كا كہنا ہے كہ: اس حديث ميں يہ اشارہ پايا جاتا ہے كہ عورت سے جو غيرت صادر ہو اس پر اس كا مؤاخذہ نہيں كيا جائيگا، كيونكہ اس حالت ميں شدت غضب كى بنا پر اس كى عقل ماؤف ہوگى جسے غيرت نے ماؤف كر ديا تھا.

ابو يعلى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مرفوعا بيان كيا ہے جس كى سند ميں كوئى حرج نہيں:

" غيرت كھانے والى عورت وادى كے اوپر سے نيچے نہيں ديكھتى "

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 325 ).

مقام و مرتبہ اور فضيلت والى عورتوں سے جو غيرت بھى واقع ہوئى ہے وہ اسى قسم ميں شامل ہوتى ہے جس سے كوئى بچ نہيں سكتا، اور اس چيز ميں ان كا مؤاخذہ نہيں كيا جائيگا كيونكہ اس فعل ميں انہوں نے اللہ كى مشروع كردہ ميں كوئى حد سے تجاوز نہيں كى.

اور سارہ رضى اللہ تعالى عنہا كا اپنى سوكن ہاجرہ رضى اللہ تعالى عنہا سے غيرت كھانا بھى اسى ميں شامل ہوگا، اس ليے انہوں نے اپنى خاوند سے مطالبہ كيا كہ وہ اپنى سوكن كو اپنى نظروں كے سامنے نہيں ديكھنا چاہتى، اور وہ اسے ان كے ساتھ نہ ركھيں، ان كا يہ مطالبہ كوئى برا نہيں، اور پھر علماء كرام نے يہ بيان كيا ہے كہ ابراہيم عليہ السلام خود ہى ہاجرہ كو وہاں سے لےگئے سارہ نے ان سے يہ مطالبہ نہيں كيا.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كہا جاتا ہے كہ: سارہ رضى اللہ تعالى عنہا كى غيرت شديد ہوگئى تو ابراہيم عليہ السلام اسماعيل اور ان كى والدہ كو اسى ليے مكہ لے گئے "

ديكھيں: فتح البارى ( 6 / 401 ).

اس كى دليل ہاجرہ رضى اللہ تعالى عنہا كا يہ قول دلالت كرتا ہے كہ:

" اے ابراہيم عليہ السلام آپ ہميں اس وادى ميں جہاں كوئى انسان اور كوئى چيز نہيں چھوڑ كر كہاں جا رہے ہيں ؟

ہاجرہ نے يہ بات كئى بار دہرائى اور ابراہيم نے ان كى جانب كوئى توجہ نہ كى تو وہ كہنے لگيں:

كيا اللہ نے آپ كو اس كا حكم ديا ہے ؟

تو ابراہيم عليہ السلام نے فرمايا: جى ہاں

تو ہاجرہ كہنے لگيں: پھر اللہ تعالى ہميں ضائع نہيں كريگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3184 ).

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" جب ابراہيم اور ان كى بيويوں كے مابين جو كچھ تھا تو ابراہيم عليہ السلام ام اسماعيل اور اسماعيل كو لے كر وہاں سے نكل كھڑے ہوئے اور ان كے ساتھ پانى كا مشكيزہ .. .... بھى تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3185 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قولہ: يعنى ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا يہ فرمانا:

" جب ابراہيم اور ان كے گھر والوں كے مابين جو كچھ تھا "

گھر والوں سے مراد سارہ ہيں، اور " جو كچھ تھا " يعنى جب ہاجرہ نے اسماعيل كو جنم ديا تو سارہ نے غيرت كھائى "

ديكھيں: فتح البارى ( 6 / 407 ).

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب