جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

والد نے وقف كى وصيت كى ليكن اولاد نے پورى نہيں كى

سوال

ميرے والد صاحب فوت ہو گئے ہيں، اور انہوں نے ورثاء كے ليے جائداد تركہ ميں چھوڑى ہے، اور ايك گھر كے متعلق وصيت كى ہے كہ يہ اللہ تعالى كے راستے ميں وقف ہے، اور اس كا كرايہ فقراء اور ضرورتمندوں ميں ( بطور صدقہ جاريہ ) تقسيم كيا جائے، ليكن ورثاء نے اس وصيت پر عمل نہيں كيا بلكہ اپنے حصے چھوٹے بھائى كو فروخت كر ديے ہيں.
ميں بڑا بھائى ہوں اور اللہ تعالى كے ڈر سے ميں نے اپنا حصہ فروخت نہيں كيا، ليكن ميرا چھوٹا بھائى مجھے بہت مجبور كر رہا ہے كہ ميں بھى اپنا حصہ فروخت كردوں، تو كيا ميرے ليے اس مشكل سے نكلنے كے ليے اپنا حصہ فروخت كرنا جائز ہے، اور اس كے بدلے ميں والد صاحب كى طرف سے ( بطور صدقہ جاريہ ) كسى مسجد كى تعمير كے ليے كسى خيراتى ادارے كو رقم دے دوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

كتاب و سنت اور اجماع كے مطابق وصيت مشروع ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

تم پر فرض كر ديا گيا ہے كہ جت تم ميں سے كوئى مرنے لگے اور وہ مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں كے ليے اچھائى كے ساتھ وصيت كر جائے، پرہيزگاروں پر يہ حق اور ثابت ہے البقرۃ ( 180 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ اللہ تعالى نے تمہارى موت كے وقت تم پر تمہارے مال كا ايك تہائى حصہ صدقہ كيا ہے، جو تمہارے اعمال ميں زيادتى كا باعث ہے"

سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 2709 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجۃ ميں اسے حسن كہا ہے.

اور وقف بھى صدقہ جاريہ كى اقسام ميں شامل ہے جس كا انسان كى موت كے بعد بھى فائدہ ہوتا ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى اور فرمايا:

" جب انسان مر جاتا ہے تواس كے اعمال منقطع ہو جاتے ہيں ليكن تين قسم كے اعمال جارى رہتے ہيں: صدقہ جاريہ، يا نفع مند علم، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1631 ).

اور مال كے ايك تہائى حصہ سے زيادہ ميں وصيت كرنى جائز نہيں، كيونكہ سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ نے جب سارے مال كى وصيت كرنا چاہى تو انہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايك تہائى اور ايك تہائى بہت ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2742 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1628 )

لھذا اگر تو يہ گھر تركہ كا ايك تہائى حصہ يا اس سے كم ہے تو يہ سارا گھر وقف ہے، اور اگر ايك تہائى سے زيادہ ہے تو اس ميں سے تركہ كے ايك تہائى كے برابر وقف ہو گا.

دوم:

وقف كى گئى چيز فروخت كرنى جائز نہيں، اور نہ ہى اسے ملكيت بنانا اور اس كا قبضہ كرنا جائز ہے، اور ورثہ كے ليے اسے تركہ ميں شامل كركے وراثت كے ساتھ تقسيم كرنا جائز نہيں ہے.

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ جب انہوں نے اپنى خيبر كى زمين وقف كرنا چاہى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم نے فرمايا:

" اس كى اصل فروخت نہيں كى جائے گى، اور نہ ہى ہبہ ہوگى، اور نہ ہى وراثت بنے گى.... " الحديث

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2764 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1633 )

تو اس بنا پر آپ كے ليےگھر فروخت كرنے ميں اپنے بھائى كى موافقت كرنا جائز نہيں، بلكہ يہ گھر تو آپ لوگوں كى ملكيت ہى نہيں كہ اسے فروخت كيا جائے، اور پھر آپ تو اس وقت ان كے سامنے ركاوٹ ہيں، لھذا آپ اس سے پيچھے نہ ہٹيں، بلكہ انكار پر ڈٹے رہيں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى انہيں ہدايت نصيب فرما دے.

اور آپ كے بھائيوں اس سے قبل ہى اسے فروخت كرنا صحيح نہيں، آپ كو انہيں اللہ تعالى سے ڈرنے كى وصيت كريں، اور اس كى قيمت اپنے چھوٹے بھائى كو واپس كريں، اور اپنے والد كے كہنے كے مطابق اسے وقف بنائيں.

اور آپ انہيں اللہ تعالى كے عذاب كا خوف دلائيں، اور حرام مال كھانے كا انجام بھى بيان كريں، كيونكہ جو جسم بھى حرام پر پلتا ہے اس كےليے آگ زيادہ اولى اور بہتر ہے.

ہم اللہ تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ آپ كو ہدايت نصيب فرمائے، اور دين و دنيا كى بھلائى والے كام كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب