جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

قرآن مجيد پڑھنے اور نماز ادا نہ كرنے والے شخص كا حكم

تاریخ اشاعت : 30-06-2006

مشاہدات : 9180

سوال

ميں روزانہ قرآن مجيد كى تلاوت كرتا ہوں ليكن نماز ادا نہيں كرتا، اور جب ميں نے لوگوں سے سنا كہ بے نماز كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كرنا حرام ہے تو ميں نے قرآن مجيد كى تلاوت كرنا چھوڑ دى، كيا يہ صحيح ہے ؟
ہميں معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

كلمہ طيبہ كے بعد نماز اسلام كے عظيم ركنوں ميں سے ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بندے اور كفر و شرك كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2766 ) اور صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 1078 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور نماز كو نماز اس ليے كہا جاتا ہے كہ يہ بندے اور اس كے پروردگار كے مابين تعلق اور صلہ ہے، چنانچہ جو شخص نماز ہى ادا نہيں كرتا، اس كى نہ تو زكاۃ قبول ہوتى ہے، اور نہ ہى روزہ اور حج، اور نہ جھاد اور نہ ہى امر بالمعروف اور نہى عن المنكر، اور نہ ہى قرآن مجيد كى تلاوت، اور نہ ہى صلہ رحمى بلكہ اگر وہ نماز ادا نہيں كرتا تو اس كے سارے اعمال تباہ ہو جاتے، اور اس پر واپس لوٹا ديے جاتے ہيں.

چنانچہ آپ كے ليے نماز ترك كرنا جائز نہيں، كيونكہ آپ كو علم نہيں كہ اچانك كب موت آ جائے.

اور يہ كس طرح نہ ہو حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى زندگى كے آخر ميں فرمايا جبكہ آپ موت و حيات كى كشمش ميں تھے:

" نماز كو لازم پكڑو، نماز كو لازم پكڑو، اور جن كے تم مالك ہو، نماز كو لازم پكڑو، نماز كو لازم پكڑو اور جن كے تم مالك ہو ( اس كا حق ادا كرو ) "

مسند احمد ( 3 / 117 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2697 ) صحيح ابن حبان حديث نمبر ( 1220 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " ارواء الغليل حديث نمبر ( 2178 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ نماز اسلام كا ستون اور ركن ہے، امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: آپ كے اسلام كا حصہ اتنا ہى ہے جس قدر آپ كا حصہ نماز كا ہے، اس ليے آپ كے ليے يہى پسند كرتے ہيں كہ آپ نماز پنجگانہ بروقت ادا كرنے كى پابندى كريں، اور يہ نمازيں مسلمانوں كے ساتھ مسجد ميں ادا كريں، چنانچہ آپ كے ليے ايك نماز بھى ترك كرنا حرام ہے.

كيونكہ جو شخص ايك نماز بھى ترك كرتا ہے وہ كفر كا مرتكب ہوتا ہے جس كى تفصيل اہل علم كى كتب ميں مذكور ہے، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ اسے بطور حد قتل كيا جائيگا، جيسا كہ معلوم ہے.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن حميد صفحہ نمبر ( 86 )