جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا مرد اور عورت كى نماز ميں سجدہ كى ہيئت ميں كوئى فرق ہے ؟

سوال

كيا مرد و عورت كے سجدہ ميں كوئى فرق ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بعض علماء كرام نے مرد اور عورت كى ہيئت نماز ميں فرق كيا ہے، اور اس كى كئى ايك دليليں دى ہيں، ليكن يہ سب دلائل ضعيف ہيں ان سے استدلال كرنا صحيح نہيں.

اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9276 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، ليكن اس مسئلہ ميں صحيح يہ ہے كہ مرد اور عورت كى نماز ميں كوئى فرق نہيں.

شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى فقھاء اس قول كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

فقھاء كا قول ہے " عورت كشادہ نہ ہو بلكہ اپنے آپ كو سميٹ كر ركھے اور جب سجدہ كرے تو اپنا پيٹ اپنى رانوں پر اور اپنى رانيں اپنى پنڈليوں كے ساتھ لگائے ركھے... كيونكہ عورت كے ليے ستر لازمى ہے، اور اس كے ليے اپنا آپ سميٹ كر ركھنا كشادہ ہونے سے زيادہ ستر كا باعث ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اس كا جواب كئى ايك وجوہات كى بنا پر ہے:

اول:

يہ علت ان عمومى نصوص كے مقابلہ ميں نہيں آسكتى جن نصوص ميں ہے كہ عورت احكام ميں مرد كى طرح ہے، اور خاص كر جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:

" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "

كيونكہ يہ خطاب سب مردوں اور عورتوں كو عام ہے.

دوم:

يہ اس وقت ٹوٹ جاتا ہے كہ اگر وہ اكيلى نماز ادا كرے، اور غالب طور پر عورت كے ليے مشروع بھى يہى ہے كہ وہ اكيلى اور اپنے گھر ميں مردوں كى غير موجودگى ميں نماز ادا كرے، تو اس وقت اسے اپنا آپ سميٹنے كى كوئى ضرورت ہى نہيں كيونكہ مرد تو موجود ہى نہيں.

سوم:

آپ يہ كہتے ہيں كہ وہ رفع اليدين كرے گى، اور رفع اليدين كرنا تو كشادہ اور كھل كرنماز ادا كرنے سے زيادہ انكشاف ہے، اور اس كے باوجود آپ يہ كہتے ہيں كہ عورت كے ليے رفع اليدين كرنا سنت ہے، كيونكہ اصل ميں عورت احكام ميں مردوں كے برابر ہے.

راجح قول يہ ہے كہ:

عورت بھى ہر چيز ميں اسى طرح كرےگى جس طرح مرد كرتا ہے، چنانچہ وہ رفع اليدين بھى كرےگى اور كشادہ اور كھل كر نماز ادا كرے، اور ركوع كى حالت ميں اپنى كمر كو پھيلا كر سيدھا كرے گى، اور سجدہ كى حالت ميں اپنا پيٹ رانوں سے اٹھا كر ركھے، اور اپنى رانيں پنڈليوں سے دور ركھےگى... اور دونوں سجدوں كے مابين اور پہلى تشھد اور ايك تشھد والى نماز ميں پاؤں بچھا كر بيٹھے گى، اور دو تشھد والى تين اور چار ركعتى نماز كى آخرى تشھد ميں تورك كر كے بيٹھے گى.

چنانچہ ان اشياء ميں سے عورت كے ليے كچھ بھى مستثنى نہيں ہے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 303 - 304 ).

اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى " صفۃ الصلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم " كے آخر ميں لكھتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كے طريقہ ميں جو كچھ بيان كيا گيا ہے اس ميں مرد اور عورت برابر ہيں، سنت نبويہ ميں كوئى بھى دليل نہيں ملتى جو يہ تقاضا كرتى ہو كہ اس ميں سے كچھ اشياء ميں عورتيں مستثنى ہيں بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان:

" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "

عورتوں كو بھى شامل ہے. "

ديكھيں: صفۃ الصلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 189 ).

اور اگر فرض بھى كر ليں كہ عورت كسى ايسى جگہ نماز ادا كرے جہاں ہو سكتا ہے اسے مرد ديكھ رہے ہوں مثلا حرم مكى، يا پھر ـ اگر ضرورت پڑے تو ـ كسى پارك وغيرہ ميں تو عورت كو ہر اس چيز سے بچنا ہو گا جو بے پردگى كا باعث بنے، اور اس حالت ميں وہ احتياط كرتے ہوئے عادت والےافعال نہيں كرےگى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب