جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

جماعت كب مل سكتى ہے، اور جب امام نماز ميں جلدى كرے تو كيا حكم ہو گا؟

سوال

نماز باجماعت ميں مجھے ايك مشكل پيش ہے گزارش ہے كہ مجھے اس كے متعلق معلومات فراہم كريں، وہ مشكل درج ذيل ہے:
1 - جب ميں آخرى تشھد ميں جماعت كے ساتھ ملوں تو كيا ميں جماعت كو پالوں گا يا نہيں ؟
2 - اگر ميں امام كى تيزى كى بنا پر، يا سكوت كافى نہ ہونے كى بنا پر ايك بار بھى نماز ميں سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سكوں تو كيا مجھ پر كچھ لازم آتا ہے ؟
3 - جب ميں مسجد ميں جاؤں اور نماز كھڑى ہو چكى ہو تو كيا ميں نماز كى اقامت كے وقت نماز كے ساتھ ملوں يا كہ امام كے ركوع كے وقت ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - صحيح يہ ہے كہ نماز باجماعت اس وقت تك نہيں پائى جا سكتى جب تك كہ امام كے ساتھ ايك ركعت نہ پڑھى جائے، صرف تشھد يا ركوع كے بعد تشھد سے قبل ملنے سے جماعت پا لينا شمار نہيں ہوتا.

اگر آپ صرف تشھد ہى پا سكيں تو اللہ تعالى آپ كو صبر اور اجروثواب سے نوازے، اس كى دليل يہ ہے كہ:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے نماز كى ايك ركعت پا لى اس نے نماز پا لى "

صحيح بخارى كتاب المواقيت باب من ادرك من الصلاۃ ركعۃ حديث نمبر ( 580 ) صحيح مسلم كتاب المساجد حديث نمبر ( 607 ).

يہ اہل علم محققين كا ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى كا بھى يہى قول ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے اختيار كيا ہے اور دليل بھى اسى كى تائيد كرتى ہے.

2 - قرآت فاتحہ كے متعلق گزارش ہے كہ يہ نماز كے اہم اركان ميں سے ايك عظيم ركن ہے، اس كے بغير نماز ہى نہيں ہوتى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھى اس كى نماز ہى نہيں "

ليكن اگر نمازى امام كے ساتھ نماز ادا كرے اور امام كے ساتھ ركوع ميں ملے اور سورۃ فاتحہ پڑھے بغير ركوع كر لے تو ( بعض كے نزديك ) اس كى نماز صحيح ہے، اور اس حالت ميں امام كى قرآت مقتدى كے ليے ہو گى اس كى دليل ابو بكرۃ رضى اللہ تعالى عنہ كى مشہور حديث ہے، جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا تھا:

" اللہ تعالى تيرى حرص اور زيادہ كرے آئندہ ايسا نہ كرنا "

اور اگر ـ جيسا كہ آپ كہہ رہے ہيں ـ امام تيزى كے ساتھ نماز پڑھائے، اور اس كى تيزى واضح ہو جو نماز ميں اطمنان جيسے ركن ميں مخل ہو رہى ہو ( جيسا كہ بعض حنفى نماز ادا كرتے ہيں ) تو اس كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں، كيونكہ وہ نماز پڑھانے كا اہل ہى نہيں، اور اس ليے بھى كہ نماز كے اركان ميں سے ايك ركن اطمنان مفقود ہے، اور پھر يہ اطمنان ہر ركن ميں ہونا ضرورى ہے، اس كى دليل وہ مشہور حديث ہے جو مسيئ الصلاۃ كے نام سے پہچانى جاتى ہے.

ليكن اگر امام كى تيزى نسبى ہو يعنى وہ وہ اطمنان كے واجب كا خيال ركھے تو اس طرح كے امام كے پيچھے عادتا سورۃ فاتحہ پڑھنا ممكن ہے، اگرچہ آپ قرآت ميں كچھ تيزى كريں اور حدر كے ساتھ پڑھ ليں تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اگر آپ كسى اور سبب كى بنا پر سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سكيں، مثلا بھول كر يا غلطى سے يا آپ مسبوق ہوں تو آپ پر كوئى حرج نہيں اور آپ كى نماز صحيح ہے، اور امام كى قرآت آپ كے ليے قرآت شمار ہو گى.

3 - مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ اذان سنتے ہى فورا نماز كے ليے جائے، اور مومنوں كى صفات بھى يہى ہے كہ ان كے دل مساجد كے ساتھ ہى معلق رہتے ہيں، اور نماز كے ليے جانے ميں اتنى تاخير كرنا كہ اقامت ہو جائے يہ كمزور ايمان، اور بندے كى خير و اطاعت ميں قلت رغبت كى نشانى ہے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے گھر والوں كے كسى كام ميں مشغول تھے كہ بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں نماز كا كہا تو آپ گھبرا كر جلد نماز كى طرف چل نكلے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا كرتے تھے:

" اے بلال ہميں اس نماز كے ساتھ راحت پہنچاؤ "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ بھى فرمايا كرتے تھے:

" ميرى آنكھوں كى ٹھنڈك نماز ميں ركھى گئى ہے "

جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كوئى معاملہ درپيش ہوتا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم گھبرا كر نماز ادا كرنے لگتے.

ليكن جو شخص نماز سے سستى و كاہلى كرتا، اور مسجد ميں اقامت سے پہلے جاتا ہى نہيں، يا پھر وہ دوران نماز يا تشھد كے وقت مسجد پہنچتا ہے اسے اپنا محاسبہ كرتے ہوئے سوچنا چاہيے، كيونكہ قبر ميں مومن شخص كو اس كے اعمال صالحہ يہ كہينگے:

" اللہ كى قسم ميں نے تو تجھے اللہ تعالى كى اطاعت ميں سريع اور اس كى نافرمانى ميں بہت سست پايا ہے "

اور منافق يا فاسق كو اس كا عمل يہ كہے گا:

" اللہ كى قسم ميں نے تو تجھے اللہ تعالى كى اطاعت ميں سست، اور اس كى نافرمانى ميں بہت تيز پايا "

اسے امام احمد رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے، يہ حديث صحيح ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " احكام الجنائز " ميں صحيح كہا اور اس كے طرق ذكر كيے ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى نے منافقوں كا وصف بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور جب وہ نماز كے ليے كھڑے ہوتے ہيں تو سستى و كاہلى كے ساتھ .

لہذا بندے كو اس معاملہ كى سنگينى اور خطرہ سے اجتناب كرنا چاہيے اور اسى طرح مسلمان عورت كو بھى نماز ميں اتنى دير كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے كہ اس كا وقت نكلنے كے قريب ہو اور تنگ ہو جائے، اور آخرت كے زاد راہ كو چھوڑ كر دنياوى كاموں ميں مشغول رہے ...

جس شخص نے نماز بروقت اور باجماعت مسجد ميں ادا كرنے كى عادت بنالى اور اس كى محافظت كى اور اس كے ساتھ معلق رہا تو يہ اس كى ايسى عادت بن جائيگى جو ان شاء اللہ اس سے جدا نہيں ہو گى.

اور جس نے اس كا تجربہ كيا وہ اس كى عظيم لذت اور اطمنان و سكون اور راحب قلب جان لے گا، اللہ تعالى كے سامنے كھڑا ہونے كے وقت خشوع و خضوع كو ياد ركھے گا.

اور يہ بندے پر اللہ تعالى كا فضل و كرم ہے كہ مكمل سال گزر جائے ليكن بغير كسى شرعى عذر كے اس كا كوئى فرض جماعت كے ساتھ نہ رہا ہو، اور جب ايك سچا اور پكا مومن جب كسى روز نماز سے سويا رہے يا پھر كسى دنياوى كام كى بنا پر نماز سے ليٹ ہو جائے تو اسے غم و پريشانى اور عظيم كرب لاحق ہوتا ہے، اور يہ دنياوى معاملات سب كے سب حقير اور ختم ہونے والے ہيں، اور يہ بندے كے ليے اللہ تعالى كى جانب سے اس كى اطاعت اور اس پر استقامت پر ثابت قدم رہنے كے ليے اس كى توفيق ہے.

جب نماز كى اقامت ہو جائے تو نماز كے ليے فورا جماعت كے ساتھ ملنا واجب ہے، چاہے فجر كى نماز ہى ہو، اگرچہ امام اس ميں لمبى قرآت ہى كيوں نہ كرے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب نماز كى اقامت ہو جائے تو فرضى نماز كے علاوہ كوئى نماز نہيں ہوتى "

صحيح مسلم كتاب صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 710 ).

يہاں نفى صحت كے ليے ہے، يعنى جب نماز كى اقامت ہو جائے تو كوئى نماز صحيح نہيں.

اسى طرح اگر كوئى شخص نفل يا سنت ادا كر رہا ہو اور نماز كھڑى ہو جائے تو اس پر نماز توڑنا واجب ہے ـ اگر چاہے تو ـ وہ بعد ميں اس كى قضاء كر لے، اور اگر وہ اقامت كے بعد اپنى نماز پورى كرتا ہے تو اس كى نماز صحيح نہيں بلكہ باطل ہو گى.

بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ اگر وہ سنت يا نفل كى آخرى ركعت ميں ہو اور اسے يہ علم ہو كہ تكبير تحريمہ كے ساتھ مل جائيگا تو وہ اسے مكمل كر لے، كيونكہ شارع كا مقصد امام كے ساتھ نماز ميں جلد ملنے كا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد