جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

اگر امام قرآت ميں غلطى كرے اور اس كے ساتھ صرف ايك ہى عورت ہو تو عورت كيا كرے ؟

تاریخ اشاعت : 25-03-2006

مشاہدات : 6470

سوال

اگر مسلمان عورت كسى مرد ( مثلا اس كا محرم ) كے پيچھے نماز ادا كر رہى ہو اور امام بھول جائے تو وہ اسے غلطى كيسے بتائے, ( عورت كے علاوہ كوئى اور غلطى بتانے والا نہيں ہے ) ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت كے ليے نماز ميں اپنے محرم كو بھول جانے كى صورت ميں غلطى بتانا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اس كے ساتھ كوئى اور اجنبى مرد عورت كى آواز سننے والا نہ ہو.

مندرجہ ذيل حديث ميں عورت كو سبحان اللہ كہنے كى نہى اور اسے تالى بجانے كا حكم اس حالت ميں ہے جس ميں حديث وارد ہے، وہ يہ كہ عورتوں كا اجنبى مردوں كے ساتھ موجود ہونا.

چنانچہ غير محرم مردوں كى موجودگى ميں نماز ميں بلند آواز سے آمين اور سبحان اللہ نہيں كہنا چاہيے، اور نہ ہى امام كى غلطى نكالنے كے ليے سبحان اللہ كہ سكتى ہے.

سھل بن سعد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بنو عمرو بن عوف كے مابين صلح كروانے گئے اور نماز كا وقت ہو گيا چنانچہ مؤذن ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور عرض كيا كيا آپ لوگوں كو نماز پڑھائينگے تو ميں اقامت كہوں، انہوں فرمايا جى ہاں، چنانچہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے لوگوں كو نماز پڑھانے لگے، دوران نماز ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لے آئے اور آكر صفوں كو چيرتے ہوئے اگلى صف ميں كھڑے ہو گئے، تو لوگ تالياں بجانے لگے اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے التفات نہ كيا، اورجب لوگ تالياں زيادہ بجانے لگے تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے مڑ كر ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ نظر آئے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اشارہ كيا كہ وہ اپنى جگہ ہى رہو، ابو بكر رضى اللہ تعالى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس حكم پر ہاتھ اٹھا كر اللہ كى حمد و ثنا بيان كى، اور پھر پيچھے ہٹ كر صف ميں كھڑے ہو گئے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے آگے بڑھ كر نماز پڑھائى.

جب نماز سے فارغ ہوئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اے ابو بكر جب ميں نے تجھے حكم ديا كہ اپنى جگہ پر ہى رہو تو تمہيں كس چيز نے ايسا كرنے سے منع كيا ؟

تو انہوں نے عرض كيا: ابن ابو قحافہ كے لائق نہيں كہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے آگے ہو كر نماز پڑھائے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا ہے كہ ميں نے تمہيں ديكھا كہ تم نے تالياں كثرت سے بجانى شروع كرديں، جسے اپنى نماز ميں كوئى شك يا تردد ہو تو وہ سبحان اللہ كہے، كيونكہ جب وہ سبحان اللہ كہے گا تو اس كى طرف متوجہ ہوا جائيگا، تالى تو عورتوں كے ليے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 652 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 421 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

عورتوں كو سبحان اللہ كہنے سے اس ليے منع كيا گيا كہ انہيں نماز ميں مطلقا آواز پست ركھنے كا حكم ہے، كيونكہ اس سے فتنے كا ڈر ہے، اور مردوں كو تالي بجانے سے اس ليے منع كيا گيا ہے كہ يہ عورتوں كا كام ہے. اھـ

ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 77 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: عورتوں كے ليے سبحان اللہ كى كراہت اور تالى كى اجازت اس ليے ہے كہ اكثر عورتوں كى آواز اور گفتگو ميں نرمى ہوتى ہے، ہو سكتا ہے كہ اس كى آواز سن كر مرد اسى ميں مشغول ہو جائيں.

ديكھيں: التمھيد ( 21 / 108 ).

ولى الدين عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر عورت نماز ميں كسى معاملہ كے پيش آجانے كى صورت ميں اپنے حق ميں مشروع كام كى مخالفت كر كے سبحان اللہ كہہ دے تو اس بھى نماز باطل نہيں ہو گى، ليكن اگر وہ پست آواز ميں كہتى ہے كہ كوئى بھى نہ سن سكے تو اس سے مقصد حاصل نہيں ہوتا، اور اگر وہ بلند آواز سے كہے تو جسے وہ سمجھانا چاہتى ہے تو يہ كہنا چاہيے كہ: اگر عورت يا محرم ہو تو اس ميں كوئى كراہت نہيں، اور اگر كوئى اجنبى مرد ہو تو جب ہم يہ كہيں كے عورت كى آواز كا پردہ ہے تو اس حالت ميں يہ مكروہ بلكہ حرام ہے...

ہمارى يہ مراد نہيں كہ اس حالت ميں اس كے ليے سبحان اللہ كہنا مشروع ہے، بلكہ ہم يہ كہنا چاہتا ہيں كہ اگر اس نے سبحان اللہ كہہ كر متنبہ كيا تو يہ مكروہ نہيں، اگرچہ اس كے حق ميں مشروع اور افضل تو تالى بجانى تھى... كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان: " تالى تو عورتوں كے ليے ہے " كا ظاہر اس كى ہر حالت ميں مشروعيت ہے. واللہ اعلم

ديكھيں: التثريب ( 2 / 248 - 249 ).

زركشى كا كہنا ہے كہ:

انہوں نے تالى كا اطلاق عورت كے ليے كيا ہے، اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ يہ اس وقت ہے جب اجنبى مرد موجود ہوں، اور اگر عورتيں ہوں يا پھر اس كے محرم مرد ہوں تو عورت قرآت كى طرح سبحان اللہ بھى جھرى كہے گى.

ديكھيں: المغنى المحتاج ( 1 / 418 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب