جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

تشہد سے متعلق قصہ کے بارے میں کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ معراج کے موقع پر ہوا تھا؟

117604

تاریخ اشاعت : 13-04-2016

مشاہدات : 21262

سوال

بہت سے انٹرنیٹ فورمز پر تشہد سے متعلق قصہ پھیلا ہوا ہے ، جس میں مضمون نگار نے دورانِ نماز خشوع و خضوع کی ترغیب دیتے ہوئے تشہد کی اصلیت کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے، اس مضمون میں ہے کہ: ۔۔۔ تشہد کی گفتگو اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعہ سے شروع ہوتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جبریل علیہ السلام کی معیت میں سفرِ معراج کے دوران سدرۃ المنتہی تک پہنچتے ہیں تو ایک جگہ سیدنا جبریل علیہ السلام آگے بڑھنے سے رک جاتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (کیا یہاں دونوں دوست الگ الگ ہو جائیں گے؟) تو اس پر سیدنا جبریل علیہ السلام نے فرمایا: "یا رسول اللہ ! ہم میں سے ہر ایک کا مخصوص مقام ہے، اگر آپ اس سے آگے بڑھے تو خاکستر ہو جائیں گے، اور اگر میں آگے بڑھا تو میں بھی بھسم ہو جاؤں گا، تو سیدنا جبریل اللہ کے خوف سے پرانے پالان کی طرح ہو گئے، پھر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہی کی جانب بڑھے اور اس کے قریب چلے گئے، اس وقت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ" کہا ۔
اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا: " اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ" پھر سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ"
اس پر سیدنا جبریل نے اور کچھ کے مطابق مقرب فرشتوں نے کہا کہ: " أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ "، مضمون نگار کا کہنا ہے کہ: کیا ہم تشہد پڑھتے ہوئے اتنی اعلی اور ارفع قسم کی بات چیت اور گفتگو کو ذہن میں رکھتے ہیں؟ کیا ہم دل میں یہ سوچتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہی پر پہنچ کر بھی ہمیں یاد رکھتے ہیں، آپ کی محبت ہمیں وہاں بھی یاد کرتی ہے، ۔۔۔ اللہ کے رسول! ہمیں آپ سے بہت محبت ہے، ہماری یہ تمنا ہے کہ آپ کو خواب میں دیکھ لیں۔۔۔چاہے آپ ہمیں ڈانٹ ہی کیوں نہ پلا رہے ہوں۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی طرح آپ کا دیدار ہم اپنی آنکھوں میں سما لیں، میرے حبیب اور اللہ کے رسول ! اللہ تعالی آپ پر رحمتیں نازل فرمائے۔
یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد کیا اب بھی تشہد ایسے ہی پڑھو گے جیسے پہلے پڑھا کرتے تھے؟
کیا اب بھی نماز میں درود ابراہیمی اسی سستی اور کاہلی کیساتھ پڑھو گے؟
کیا یہ پڑھنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کثرت سے پڑھنا شروع کرو گے؟
اگر آپ اس پیغام کو آگے پہنچائیں گے تو یقیناً کار ثواب ہوگا، لیکن اگر آگے نہ بھی پہنچائیں تو گناہ نہیں ملے گا، تو کیا آپ کو ثواب چاہیے؟
یا اللہ! اس پیغام کو پڑھنے، پھیلانے والے پر رحم فرما، اور اسے جہنم سے آزاد فرما"

جواب کا متن

الحمد للہ.

معراج نبوی کے واقعہ کو تشہد کی اصل حقیقت  قرار دینا  بے بنیاد بات ہے، شریعت میں اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے  علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"جو تشہد ہم نماز میں پڑھتے ہیں، کیا یہ وہی تشہد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کو سدرۃ المنتہی کے پاس سجدہ کی حالت میں پڑھا تھا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
 " ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا اس وقت میرا ہاتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا بالکل اسی طرح جیسے آپ مجھے قرآن کی سورت سکھا رہے ہوں: " اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ "[تمام زبانی، بدنی، اور مالی عبادات اللہ تعالی کیلیے ہیں، اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی جانب سے سلامتی ، رحمتیں، اور برکتیں نازل ہوں، ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -ﷺ-اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں]۔ اس حدیث کو متعدد محدثین نے روایت کیا ہے۔

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ : نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :(جب تم میں سے کوئی نماز میں قعدہ کیلیے بیٹھے تو وہ یہ پڑھے: " اَلتَّحِيَّاتُ .... "اور پھر مکمل تشہد کی سابقہ دعا ذکر کی، اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب  نمازی: " وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ "[اور اللہ کے صالح بندوں پر سلام ہو] پڑھے تو  اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اگر تم نے یہ پڑھ لیا تو آسمان اور زمین  میں اللہ کے تمام صالح بندوں پر سلام پڑھ دیا) ، اور اسی روایت کے آخر میں فرمایا کہ: (پھر اپنے لیے جو چاہے اللہ تعالی سے مانگ لے)متفق علیہ

نیز امام احمد نے اس حدیث کو ابو عبیدہ سے، وہ اپنے والد سے، اور وہ عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تشہد سکھایا اور لوگوں کو مکمل تشہد سکھانے کا حکم بھی دیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث تشہد کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے، اکثر صحابہ، تابعین اور اہل علم کا اس پر عمل ہے۔

اور امام ابو بکر بزّار کہتے ہیں:  تشہد کے باب میں صحیح ترین حدیث یہی ہے، مزید کہا کہ: اس حدیث کو بیس سے زائد سندوں سے روایت کیا گیا ہے، اور اسی بات کی تائید امام بغوی نے اپنی کتاب "شرح السنة"  میں کی ہے" انتہی
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ روایات میں یہی تشہد صحیح ترین ہے۔

لیکن یہ کہنا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں سدرۃ المنتہی کے پاس حالتِ سجدہ میں اس تشہد کو پڑھا مجھے اس بارے میں علم نہیں ہے، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات سدرۃ المنتہی کے پاس سجدہ کیا تھا" انتہی
شیخ عبد العزیز بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی ، شیخ عبد الله بن غدیان ، شیخ عبد الله بن قعود ۔

" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 7 / 6 -7 )

مزید کیلیے سوال نمبر: (113952) کا جواب ملاحظہ کریں۔

ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ثابت شدہ ، یا بدعتی افکار و نظریات  وغیرہ پر مشتمل مضامین اور پیغاموں کو شرعی طور نشر کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی پیغام آگے بھیجنے سے پہلے اس بات کا اطمینان کر لیں کہ اس میں بیان شدہ تمام چیزیں ثابت اور صحیح ہیں۔

اس بارے میں حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی بھی شخص کے جھوٹے ہونے کیلیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے) مسلم: (5)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب