الحمد للہ.
ماں کے پیٹ میں بچہ کی بدصورتی کے کئي ایک اسباب ہیں ، اوران اسباب میں سے اکثر کی تلافی ہوسکتی ہے اوران سے بچا جاسکتا ہے یاپھران کے آثارمیں کمی کی جاسکتی ہے ، اوردین اسلام اورطب نے مرض کے اسباب سے حسب استطاعت بچنے اوررکنے پرابھارا ہے ۔
اورپھراسلامی تعلمیات توصحت کی حفاظت اوربچے کا خیال کرنے کی دعوت دیتی اوراس پرابھارتی ہیں کہ اسے ان امراض سے بچایا جائے جن امراض کا سبب اسلامی تعلیمات سے دوری اورمعصیت ونافرمانی ہے مثلا : زنا ، شراب نوشی ، سگرٹ نوشی ، نشہ کرنا ۔
اوراسی طرح موجودہ دور کی جدید طب بھی ماؤں کوبعض ادویات کے استعمال سے بچنے کا کہتی ہے کہ ان کےاستعمال میں خطرہ پایا جاتا ہے ،اوراسی طرح لیزرشعاعوں اوردوسری شعاعوں سے بچنا چاہیے اورخاص کرحمل کےابتدائي ایام میں تواوربھی زيادہ احتیاط کرنا ضروری ہے ۔
اورجب موثوق میڈیکل بورڈ کے ذریعہ قطعی اوریقینی طورپربچے کی بدصورتی ثابت ہوجائے ، اورموجودہ دورکے جدید طبی وسائل کوبروئے کارلاتے ہوئے یہ بدصورتی قابل علاج بھی نہ ہو ، تومیرے نزدیک اس بچے کی زندگي میں آنے والی مشکلات اورتکالیف وصعوبات ، اوراس کی وجہ سے اس کے اقرباء کوپیش آنے والے حرج ، اوراس کا خيال اورحفاظت کرنے کے سبب سے معاشرہ میں پیدا ہونے والی مشکلات کومدنظر رکھتے ہوئے اسقاط حمل مباح ہے ۔
اورشائدانہی اسباب کے پیش نظر رابطہ عالم اسلامی کے تابع مجلس فقھی اسلامی کے مکہ مکرمہ میں منعقدہ بارویں اجلاس میں بدصورت بچے کے حمل کواسقاط کی اباحت میں فیصلہ ہوا جبکہ اس کی صورت مندرجہ بالا ہواورحمل کے ایک سوبیس یوم گزرنے سے قبل والدین کی رضامندی کے بعد ، یہ اجلاس پندرہ رجب 1410ھجری الموافق 12/ 2 /1990میلادی میں منعقدہ ہوا ۔
مجلس کے مندرجہ بالا فیصلہ کی اللجنۃ الدائمۃ سعودی عرب ( مستقل فتوی کمیٹی سعودی عرب ) نے بھی اپنے فتوی نمبر ( 2484 ) صادر شدہ ( 16/7/1399 ) ھجری میں موافقت کی ہے ۔
لیکن اگربدصورت بچے میں روح پھونکی جاچکی ہو اوروہ ایک سوبیس یوم کا ہوچکا ہو توجتنا بھی بدصورت ہواسقاط حمل جائز نہيں ، لیکن اس صورت میں جائز ہے کہ اگر حمل باقی رکھنے میں ماں کی زندگي کوخطرہ لاحق ہو ، کیونکہ روح ڈالے جانے کے بعد بچہ نفس بن چکا ہے جس کی حفاظت اورخیال رکھنا واجب ہے ، چاہے وہ بچہ آفات وامراض سے سلیم ہویا پھر اسے کوئي مرض لاحق ہو ۔
اورچاہے اس کی شفایابی کی امید ہویا شفایابی نہ ہوسکے ، کیونکہ اللہ تعالی نے جوکچھ بھی پیدا فرمایا ہے اس میں کوئي نہ کوئي بلیغ حکمت پائي جاتی ہے جس کا اکثر لوگوں کوعلم نہيں ، اوراللہ سبحانہ وتعالی کا زيادہ علم ہے کہ کسے پیدا کرنا بہتر اورصحیح اس کا مصداق اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
کیا وہ نہيں جانتا جس نے پیدا کیا ہے ؟ پھر وہ باریک بین اورباخبربھی ہے الملک ( 14 ) ۔
اوران بدصورت بچوں کی ولادت وپیدائيش میں صحیح وسلیم اورعافیت والوں کے لیے عبرت ونصیحت ہے ، اوراس میں اللہ تعالی کی قدرت کی معرفت بھی پائي جاتی ہے کہ وہ مخلوق میں اپنی قدرت کے نمونے دکھاتا ہے اورسبحانہ وتعالی اپنی قدرت کے عجائبات دکھاتا ہے ۔
اوراسی طرح ان بدصورت بچوں کے قتل اوراسقاط حمل میں صرف مادی نظریہ ہے اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئي دینی اورمعنوی معاملہ اورنظریہ نہيں ہے ، اور ہوسکتا ہے اس بدصورتی کی موجودگی میں انسان اپنے رب کے سامنے اورزيادہ مسکین اورذلیل ہواوراس کی عبادت کرے ، اوراس بدصورتی پرانسان کا صبروتحمل اللہ تعالی کی جانب سے عظیم اجروثواب کے حصول کا باعث بنے ۔
اورخلقتی بدصورتی تقدیر ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے بعض بندوں کے لیے چاہا ہے لھذا جواس پرصبر کرے گا وہ کامیاب ہوا ، اوریہ ایسے امور ہیں جوپیدا ہوتے رہے ہیں اورتاريخ میں اس کا وجود پایا جاتا ہے اورپیدا ہوتے رہیں گے ۔
اورافسوس کی بات ہے کہ تحقیق سے پتہ چل رہا ہے کہ یہ پیدائيش بدصورتی زيادہ ہورہی ہے اوراس کا سبب ماحول کی آلودگي اورنقصان دہ شعاعوں کی کثرت ہے جواس وقت فضاء میں پھیل رہی ہیں ، اورایسی شعائیں آج سے پہلے ادوار میں توپائي نہيں جاتی تھیں ۔
اوریہ اللہ تعالی کی لوگوں پررحمت وفضل ہے کہ اس نےبہت سارے بدصورت بچوں کا انجام پیدا ہونے سے قبل ہی یہ رکھا ہے کہ یا توحمل ساقط ہوجاتا ہے یا ان کی ولادت سے قبل ہی موت واقع ہوجاتی ہے ۔
لھذا مسلمان عورت اورمسلمان خاندان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی مصیبت پرصبروتحمل سے کام لے اوراللہ تعالی سے اجروثواب کی نیت کرے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ .