جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ شادی کے وقت عمر کی تحقیق

سوال

 میں نے ایک فورم پر تعجب خیز اور حیرت انگیز سا مضمون پڑھا ہے، میں چاہتا ہوں کہ کوئی سیرت نبوی کا ماہر شخص ہی اس بارے میں وضاحت کرے، اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے۔
اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ صحافی حضرات تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ صحیح بخاری میں مذکور عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر درست نہیں ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے نکاح ہوا تو ان کی عمر چھ برس تھی، اور رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی، اپنی تحقیق میں مضمون نگار نےاعداد و شمار اور تاریخی شواہد پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مضمون نگار نے بخاری و مسلم کی مشہور روایات کو بھی نشانہ بنایا، اور ہر دو لحاظ سے یہ ثابت کیا کہ بات صرف اسی کی درست ہے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نکاح  چھ سال کی عمر میں اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی ہر دو واقعات کے وقت عمر کا تعین علمائے کرام کے اجتہاد سے نہیں ہوا ، اس لیے اس کے صحیح اور غلط ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی، بلکہ یہ ایک تاریخی امر ہے جو کہ ایسے ٹھوس شواہد اور دلائل سے ثابت شدہ ہے جن کی وجہ سے مذکورہ تاریخوں کو درست مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ، جیسے کہ درج ذیل ہے:

1- مذکورہ عمر  کی تعیین جن کی اس عمر میں شادی ہوئی ہے یعنی خود عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی منقول ہے، کسی اور نے یہ عمر بیان نہیں کی، کسی مؤرخ یا محدث نے ان کی عمر متعین نہیں کی، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی گفتگو میں کہتی ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میری عمر اس وقت چھ سال تھی، پھر جس وقت ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن خزرج کے ہاں ٹھہرے، تو مجھے وہاں بخار ہو گیا اور اس کی وجہ سے میرے بال جھڑ گئے پھر جب کندھے تک لمبے ہوئے تو میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں میں اس وقت اپنی سہیلیوں کیساتھ جھولے لے رہی تھی، میری والدہ نے مجھے زور دار آواز دے کر بلایا میں ان کے پاس آئی  مجھے نہیں معلوم انہوں نے مجھے کس لیے بلایا تھا، میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے دروازے پر پہنچ گئیں، میرا سانس اس وقت پھولا ہوا تھا، جب میرا سانس آپس میں ملا تو پانی سے میرا سر اور چہرہ دھویا، پھر مجھے ایک گھر میں لے گئیں، تو وہاں انصار کی کچھ خواتین  پہلے سے ہی موجود تھی، انہوں نے میرے بارے میں کلمات خیر کہے، اور میری والدہ نے مجھے ان کے سپرد کر دیا، ان خواتین نے میرا بناؤ سنگھار کر دیا، مجھے کسی بات کا علم ہی نہیں تھا کہ چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میری والدہ نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا، اور میری عمر اس وقت نو سال تھی"
بخاری: (3894) مسلم: (1422)

2- یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتب یعنی صحیح بخاری اور مسلم میں بیان ہوئی ہے۔

3- نیز یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعدد اسانید سے مروی ہے، لیکن کچھ جاہل لوگ  اس روایت کی ایک ہی سند سمجھتے ہیں، چنانچہ ان کی تفصیلات یہ ہیں:

- مشہور ترین سند ہشام بن عروہ بن زبیر  اپنے والد عروہ سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں، یہ روایت صحیح ترین روایت ہے؛ کیونکہ عروہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں اس لیے انہیں اپنی خالہ کے بارے میں صحیح ترین معلومات  تھیں۔

- ایک سند زہری سے ہے جس میں وہ عروہ بن زبیر  کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، یہ روایت صحیح مسلم : (1422) میں ہے۔

- ایک سند اعمش سے ہے وہ ابراہیم کے واسطے سے اسود سے بیان کرتے ہیں اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح چھ سال کی عمر میں کیا اور رخصتی  نو سال کی عمر میں ہوئی، اور جب آپ فوت ہوئے تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی" مسلم: (1422)

- ایک سند میں  محمد بن عمرو ، یحیی بن عبد الرحمن بن حاطب کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں یہ سند ابو داود: (4937) میں ہے۔

- فضیلۃ الشیخ ابو اسحاق حوینی حفظہ اللہ نے عروہ بن زبیر کی متابعت کرنے والے راویوں کے نام ذکر کیے ہیں جن میں اسود بن یزید، قاسم بن عبد الرحمن، قاسم بن محمد بن ابو بکر، عمرۃ بنت عبد الرحمن اور یحیی بن عبد الرحمن بن حاطب شامل ہیں۔

اسی طرح انہوں نے ہشام بن عروہ کی متابعت کرنے والے راویوں کو بھی جمع کیا ہے، جن میں ابن شہاب زہری، ابو حمزہ میمون -جو کہ عروہ کے غلام ہیں -شامل ہیں۔

اس کے بعد انہوں نے یہ واضح کرنے کیلیے کہ ہشام بن عروہ نے یہ روایت مدینہ میں بھی روایت کی ہے اہل مدینہ کے راوی ذکر کیے ، جن میں ابو زناد عبد اللہ بن ذکوان، انہی کے بیٹے عبد الرحمن بن ابو زناد، عبد اللہ بن محمد بن یحیی بن عروہ شامل ہیں۔

اہل مکہ میں سے یہ روایت ہشام بن عروہ سے سفیان بن عیینہ بیان کرتے ہیں۔

اہل الری میں سے  جریر بن عبد الحمید ضبی ہشام بن عروہ بیان سے کرتے ہیں۔

اہل بصرہ میں سے حماد بن سلمہ، حماد بن زید اور وہیب بن خالد سمیت دیگر راوی ہشام بن عروہ سے بیان کرتے ہیں۔

اس سے متعلق تمام تفصیلات جاننے کیلیے شیخ ابو اسحاق حوینی حفظہ اللہ کا درس سنیں جس میں سوال میں مذکور صحافی کی لا علمی و جہالت عیاں کرتے ہوئے اس کے مضمون کا رد کیا ہے ، اس کا لنک یہ ہے:
http://www.islamway.net/?iw_s=Lesson&iw_a=view&lesson_id=86106

اسی طرح اس دھاگے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے:
http://www.islamway.net/?iw_s=Lesson&iw_a=view&lesson_id=86495

راویوں کے اعداد و شمار پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جاہلوں  کے اس شبہ کی تردید ہو سکے کہ ہشام بن عروہ اکیلے ہی اس روایت کے راوی ہیں، چنانچہ بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ ہشام کا آخری عمر میں حافظہ بالکل کمزور ہو گیا تھا تو ان کے حافظہ کمزور ہونے سے اس روایت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اگرچہ ہشام بن عروہ کے بارے میں یہ کہنا ہی غلط ہے کہ ان حافظہ بالکل ختم ہو گیا تھا،  یہ بات ابو الحسن قطان نے " بيان الوهم والإيهام " میں بیان کی ہے جو کہ سراسر غلط ہے:

اس بارے میں ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہشام بن عروہ بلند پایہ صاحب علم، حجہ اور امام ہیں، بڑھاپے میں قوت حافظہ معمولی سے فرق کیساتھ کم ہو گئی تھی، چنانچہ ابو الحسن بن قطان کی بات معتبر نہیں ہوگی، ان کا کہنا ہے کہ :
"ہشام بن عروہ اور سہیل بن ابو صالح دونوں کا حافظہ بالکل ختم ہو گیا تھا"
یہ بات ٹھیک ہے کہ معمولی سا فرق آگیا تھا، لیکن پھر بھی ان کا حافظہ ایسے ہی تھا جیسے جوانی میں تھا، اگر بڑی عمر میں کچھ باتیں انہیں بھول گئیں تھی یا کچھ باتوں کے بارے میں وہم ہونے لگا تھا تو کیا ہوا؟! کیا وہ بھولنے سے معصوم تھے؟ انہوں نے اپنی آخری عمر میں  عراق آ کر علم کی خوب نشر و اشاعت کی، اس دوران معمولی مقدار میں ان سے کچھ احادیث صحیح طرح بیان نہ ہوئیں، ایسا ہو جانا کوئی اچنبھے  کی بات نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا تو مالک، شعبہ اور وکیع جیسے  بڑے قد آور معتمد  علما کیساتھ بھی ہوا ہے، اس لیے آپ ہشام کے بارے خبطی باتوں پر بالکل بھی دھیان نہ دیں، اور معتمد راویوں کیساتھ ضعیف اور کمزور حافظے والے راویوں کو مت ملائیں، اس لیے ہشام بن عروہ شیخ الاسلام ہیں، لیکن ابن قطان کی گفتگو  پر اللہ تعالی ہی ہمیں صبر سے نوازے، اسی طرح عبد الرحمن خراش کی بات پر کہ: امام مالک رحمہ اللہ ہشام بن عروہ کو پسند نہیں کرتے تھے، کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ  ان احادیث کی وجہ سے ہشام بن عروہ کو پسند نہیں کرتے تھے جو انہوں نے اہل عراق کو بیان کی تھیں" انتہی
" ميزان الاعتدال " (4/301-302)

4- اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے نو سال کی عمر میں شادی کا واقعہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ بھی دیگر معاصرین ِ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے:

- امام احمد نے مسند احمد: (6/211) میں محمد بن بشر سے روایت کیا ہے کہ وہ محمد بن عمرو سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں ابو سلمہ اور یحیی دونوں نے بتلایا کہ: "جب خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں تو خولہ بنت حکیم یعنی عثمان بن مظعون کی اہلیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! آپ شادی نہیں کرو گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کس سے  کروں؟ ) تو انہوں نے کہا آپ چاہیں تو کسی کنواری سے یا کسی بیوہ سے کر لیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کنواری کون ہے؟) اس پر انہوں نے کہا: آپ کے ہاں سب سے عزیز ترین شخصیت  کی بیٹی عائشہ بنت ابو بکر۔۔۔۔" اس کے بعد انہوں نے شادی کی دیگر تفصیلات بھی ذکر کیں، اور اس میں یہ واضح لفظوں میں ہے کہ اس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال تھی پھر جب رخصتی ہوئی تو  ان کی عمر نو سال تھی۔

5- یہی بات جو عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر راوی آپ سے بیان کر رہے ہیں اس پر تمام تاریخی مصادر متفق ہیں چنانچہ جس نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کے حالات زندگی بیان کیے ہیں  کسی نے بھی اس سے متصادم بات ذکر نہیں کی، کیونکہ یہ معاملہ ہی ایسا ہے کہ ذاتی قیاس آرائی اور اجتہاد کی اس میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ کوئی اپنی آپ بیتی سے بیان کرے تو پھر اس کے بارے میں کسی اجتہاد وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

6- تمام تر تاریخی مصادر اس بات پر بھی متفق ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسلام کا اعلان ہونے کے بعد تقریباً چار یا پانچ سال بعد پیدا ہوئی ہیں۔

اس بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات: "میں نے جب سے ہوش سنبھالی ہے اس وقت سے اپنے والدین کو دین پر کار بند دیکھا ہے" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش اسلام کی حالت میں ہوئی ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والد ابتدائے اسلام میں ہی مسلمان ہو گئے تھے، اور یہ بات اسود بن یزید کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا  اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال تھی، تاہم اسما بنت ابی بکر دور جاہلیت میں پیدا ہوئی تھیں، پھر والد کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی مسلمان ہو گئی تھیں۔۔۔نیز ابو عبد اللہ بن مندہ نے ابن ابی زناد کی یہ بات نقل کی ہے کہ اسما بنت ابی بکر عائشہ رضی اللہ عنہا  سے دس سال بڑی تھیں، اور اسما رضی اللہ عنہا کی والدہ کچھ دیر کے بعد مسلمان ہوگئی تھیں، اس کیلیے انہوں نے اسما رضی اللہ عنہا کی یہ بات بھی نقل کی کہ: "جس وقت میری والدہ مشرک تھیں  تو میرے پاس آئیں " یہاں پر یہ دیکھنا لازمی ہے کہ اسما کی والدہ کا نام قتیلہ  تھا جو کہ بنی مالک بن حسل کے خاندان سے تھیں، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کی والدہ نہیں تھیں؛ کیونکہ اسما اپنے والد کیساتھ مسلمان ہو چکی تھیں، جبکہ عبد الرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے والدین کے اسلام لانے کے وقت بالغ تھے، چنانچہ عبد الرحمن نے کافی مدت کے بعد اسلام قبول کیا، اور آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے سب سے بڑے تھے" انتہی مختصراً
" السنن الكبرى " (6/203)

ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش عہد اسلام میں ہوئی ہے، آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آٹھ سال چھوٹی تھیں، آپ اکثر کہا کرتی تھیں: "جب سے میں نے حوش سنبھالی ہے میں نے انہیں دین پر قائم ہی دیکھا ہے"
" سير أعلام النبلاء " (2/139)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت سے  چار یا پانچ سال بعد ہوئی" انتہی
" الإصابة " (8/16)

چنانچہ اس بنا پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے سال عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر آٹھ یا نو سال تھی، اور یہی بات عائشہ رضی اللہ عنہا کی سابقہ  آپ بیتی سے بھی مکمل متفق ہے۔

7- تمام تاریخ مصادر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی، لہذا اس بنا پر بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر ابتدائے ہجرت کے وقت میں نو سال ہی بنتی ہے۔

8- بالکل اسی طرح سیر و تاریخ  اور تراجم  کی کتب بھی یہی بیان کرتی ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر وفات کے وقت 63 سال تھی، چونکہ آپ کی وفات 57 ہجری میں ہوئی ہے اس لیے ہجرت سے پہلے آپ کی عمر 6 سال ہوئی، اور جب عرب کی عام عادت کے مطابق کسر توڑنے یا پوری کرنے کو سامنے رکھا جائے کہ وہ ابتدائی اور آخری دونوں سالوں کی کسر شامل /خارج کرتے تھے تو اس طرح ان کی عمر ہجرت کے سال 8 سال بنتی ہے، چنانچہ ہجرت کے آٹھ مہینے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے شادی کی تو اس وقت آپ کی عمر 9 سال تھی۔

9- مندرجہ بالا عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور ان کی عمر کے درمیان فرق سے بھی مطابقت رکھتی ہے، چنانچہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "اسما عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال سے کچھ بڑی تھیں" انتہی
" سير أعلام النبلاء " (2/188)

چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت سے چار یا پانچ سال بعد ہوئی اور ابو نعیم  رحمہ للہ کے مطابق "معجم الصحابہ" میں  ہے کہ: "اسما رضی اللہ عنہا  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئیں" انتہی
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ اور اسما کے مابین تقریباً 14 یا 15 سال کا فرق تھا اور یہی مطلب ذہبی رحمہ اللہ کی سابقہ گفتگو کا بنتا ہے کہ: " اسما عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال سے کچھ بڑی تھیں "

10- ہم جو بھی اعداد و شمار سیرت، تاریخ اور تراجم  کی کتب سے ذکر کر  رہے ہیں  یہ ہم صحیح سند کیساتھ ثابت ہونے پر ہی کر رہے ہیں ، چنانچہ جو بھی بات ہمیں سند کے بغیر ملی ہم اسے ذکر نہیں کرتے۔
ہمارا اصل اعتماد صحیح سند کیساتھ ثابت شدہ چیزوں  پر ہے، تاہم ان حوالہ جات میں  بھی وہی کچھ مذکور ہے جو ہم نے جواب کے شروع میں ہی روزِ روشن کی طرح عیاں صحیح اور ثابت شدہ اسانید سے بیان کر دیا ہے، اس لیے ہم نے تاریخ کی کتابوں سے بھی بطورِ تائید حوالہ جات پیش کر دیے ہیں۔

دوم:

سوال میں مذکور غیر متوازن مضمون نگار  نے اسما اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی عمر کے درمیان فرق دس سال کا بیان کرنے کیلیے جن باتوں کو دلیل بنایا ہے، ان کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ:

یہ بات سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہے، اور اگر یہ سند کے اعتبار سے ثابت ہو بھی جائے تو پھر بھی سابقہ قطعی دلائل کی روشنی میں اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔

چنانچہ سند کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ:
عبد الرحمن بن ابی زناد کہتے ہیں کہ: "اسما بنت ابی بکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال بڑی تھیں"

یہ بات اصمعی ، عبد الرحمن ابن ابی زناد سے بیان کرتے ہیں جو کہ اصمعی سے آگے دو سندوں سے منقول ہے:

پہلی سند یہ ہے کہ : ابن عساکر نے " تاريخ دمشق " (69/10) میں لکھا ہے کہ:
"ہمیں ابو الحسن بن علی بن احمد مالکی  نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں احمد بن عبد الواحد سلمی نے، وہ کہتے ہیں ہمیں میرے دادا ابو بکر نے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو محمد بن زبر نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے احمد بن سعد بن ابراہیم زہری نے وہ کہتے ہیں ہمیں محمد بن ابی صفوان نے ، وہ کہتے ہیں ہمیں اصمعی نے  اور وہ ابو زناد سے یہ بات ذکر کرتے ہیں۔۔۔"

دوسری سند یہ ہے:  اسے ابن عبد البر رحمہ اللہ نے " الاستيعاب في معرفة الأصحاب " (2/616) میں ذکر کیا ہے کہ :
"ہمیں احمد بن قاسم نے  بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں محمد بن معاویہ نے بتلایا، وہ کہتے ہیں ہمیں ابراہیم بن موسی بن جمیل بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن اسحاق قاضی نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نصر بن علی نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اصمعی  نے بتلایا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو زناد نے بیان کیا کہ: اسما بنت ابی بکر کہتی ہیں-آپ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کم و بیش دس سال بڑی تھیں-۔۔۔"

اب یہاں اگر کوئی منصف محقق صرف اس ایک اثر کو لیکر بیٹھ جائے اور بقیہ ثابت شدہ تمام تر آثار کو سرے سے تسلیم نہ کرے تو یہ علم سمیت فنِ تحقیق  پر کلنک ہوگا، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

1- عبد الرحمن بن ابی زناد (100- 174 ہجری) اسما اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے مابین فرق متعین کرتے ہوئے دس سال کا موقف رکھنے والے فردِ واحد ہیں، جبکہ سابقہ دلائل میں  متعدد تابعین کرام  سے دس سے زیادہ کا فرق ثابت ہے، اور یہ بات سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ زیادہ افراد کی بات کو مقدم کیا جائے گا فرد واحد کی بات نہیں مانی جائے گی۔

2- متعدد اہل علم نے عبد الرحمن بن ابی زناد کو ہی ضعیف قرار دیا گیا ہے، چنانچہ " تهذيب التهذيب " (6/172) میں ہے کہ:
امام احمد ان کے بارے میں کہتے ہیں: " مضطرب الحديث "
ابن معین کہتے ہیں: "محدثین ایسے لوگوں کی احادیث کو حجت نہیں بناتے"
علی بن مدینی کہتے ہیں: "جو احادیث مدینہ میں انہوں نے بیان کی ہیں وہ صحیح ہیں، جبکہ بغداد میں بیان کردہ احادیث بغدادی لوگوں نے خراب کر دی ہیں،  اور میں نے عبد الرحمن بن مہدی کو دیکھا تھا کہ انہوں نے  عبد الرحمن بن ابی زناد کی احادیث قلم زد کی ہوئیں تھیں، نیز وہ  کہا کرتے تھے: عبد الرحمن بن ابی زناد کی احادیث میں فلاں ،فلاں، فلاں  فقہا کے نام ہیں جنہیں بغدادیوں نے عبدالرحمن ابن ابی زناد  کو [تلقین یعنی]لقمہ دے کر احادیث میں شامل کروایا ہے"
ابو حاتم کہتے ہیں کہ: "ان کی احادیث لکھی جائیں لیکن حجت نہیں بن سکتیں"
امام نسائی کہتے ہیں: "ان کی احادیث کو حجت نہیں بنایا جا سکتا"
ابو احمد بن عدی کہتے  ہیں: "ان کی روایت کردہ کچھ احادیث   پر متابعت موجود نہیں ہے"

جبکہ امام ترمذی کی طرف سے حدیث نمبر: (1755) کے تحت ان کی توثیق، گزشتہ جرح مفسر سے متصادم ہے، لہذا  جرح مفسر کو توثیق پر ترجیح حاصل ہوگی، خصوصاً ایسی صورت میں جب عبد الرحمن بن ابی زناد کی بیان کردہ بات معروف کتب احادیث و تاریخ سے متصادم ہو۔

3- عبد الرحمن  بن ابی زناد کی جو روایت ابن عبد البر نے نقل کی ہے کہ: " اسما بنت ابی بکر  عائشہ رضی اللہ عنہا سے تقریبا ً دس سال بڑی تھیں " یہ روایت ابن عساکر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے؛ کیونکہ اس روایت کی سند میں اصمعی سے بیان کرنے والے نصر بن علی ثقہ ہیں جیسے کہ حافظ ابن حجر نے " تهذيب التهذيب " (10/431) میں بیان کیا ہے، جبکہ ابن عساکر کی سند میں موجود اصمعی کے شاگرد محمد بن ابی صفوان کو کسی نے بھی ثقہ قرار نہیں دیا۔

چنانچہ ابن عبد البر کی روایت کے عربی الفاظ: " أو نحوها " جس کا اردو ترجمہ: "کم و بیش" سے کیا گیا ہے،  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی کو دس سال پر یقین نہیں تھا، اس طرح سے یہ روایت ضعیف ثابت ہوتی ہے، لہذا کسی بھی انصاف پسند محقق کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس شک کو بنیاد بنا کر سابقہ ٹھوس دلائل کو رد کر دے۔

4- یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں اور باقی روایات میں تطبیق دینا بھی ممکن ہے، وہ اس طرح کہ: اسما رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت سے چھ یا پانچ سال پہلے ہوئی، جبکہ عائشہ بعثت سے چار یا پانچ سال بعد پیدا ہوئیں، چنانچہ جب اسما سن 73 ہجری میں فوت ہوئیں تو ان کی عمر اس وقت 91 یا 92 سال تھی، یہی بات ذہبی نے  " سير أعلام النبلاء " (3/380) میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
"ابن ابی زناد کے مطابق : اسما عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں، اس بنا پر اسما کی عمر وفات کے وقت 91 سال بنتی ہے، جبکہ ہشام بن عروہ کہتے  ہیں کہ  : اسما 100 سال تک زندہ رہیں اور ان کا کوئی دانت بھی نہیں گرا تھا" انتہی

5-  اسی طرح یہ بھی احتما ل ہے کہ: اسما رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت سے تقریباً 14 سال پہلے ہوئی -مضمون نگار نے اسی موقف کو اپنایا ہے- تو ہجرت کے سال ان کی عمر 27 سال تھی، اور اسما رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت سن 73 ہجری میں ان کی عمر ایک سو سال بنتی ہے، چونکہ تمام تاریخی مصادر اس بات پر متفق ہیں کہ اسما بنت ابی بکر کی وفات اسی سال ہوئی ہے جب ان کے بیٹے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو سن 73 میں شہید کیا گیا، اور اس سال ان کی عمر سو سال ہو چکی تھی، کیونکہ ہشام اپنے والد عروہ بن  زبیر سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: "اسما سو سال تک پہنچ گئی تھیں، اس کے باوجود ان کا کوئی دانت ٹوٹا تھا اور نہ ہی یاد دشت میں فرق پیدا  ہوا"

ہم آپ کے سامنے ان مراجع کا بھی ذکر کر دیتے ہیں جن میں یہ بات مذکور ہے:
" حلیۃ الأولياء " (2/56)  اور " معجم الصحابہ " از: ابو  نعیم اصبہانی ، " الاستيعاب " از: ابن عبد البر (4/1783)، " تاريخ دمشق " از: ابن عساکر (69/8)، " اسد الغابہ "از: ابن الاثیر(7/12) ، " الإصابۃ" از: ابن حجر (7/487) اور " تهذيب الكمال " (35/125)

اسما بنت ابو بکر کی ولادت بعثت سے دس سال پہلے کا موقف اصل میں ابو نعیم اصبہانی کا ہے، ان کا کہنا ہے کہ:
"اسما رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کی باپ کی طرف سے بہن تھیں، اور وہ عائشہ سے بڑی بھی تھیں، آپ کی پیدائش ہجرت سے 27 سال پہلے ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے، جس دن اسما پیدا ہوئیں تھیں اس وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عمر 21 سال تھی، تو جس وقت اسما رضی اللہ عنہا مکہ میں اپنے بیٹے عبد اللہ بن زبیر کی شہادت کے کچھ دن بعد فوت ہوئیں تو آپ کی عمر سو سال تھی، اس وقت آپ کی بینائی جا چکی تھی" انتہی

یہاں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابو نعیم رحمہ اللہ مکی زندگی کو 17 سال پر محیط سمجھتے ہیں،  کچھ اہل سیرت اگرچہ اس کے قائل ہیں لیکن یہ موقف درست نہیں ہے، اس لیے ابو نعیم کی گفتگو سمجھنے کیلیے  اس بات کی طرف توجہ ہونا ضروری امر ہے۔

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے عمر کے تفاوت کے باوجود شادی کیوں کی اس کی کیا حکمتیں  تھیں ؟ اس بارے میں جاننے کیلیے سوال نمبر: (44990) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب