الحمد للہ.
اول:
قرآن کریم حفظ کرنا ایک عبادت ہے اور اس عبادت کے ذریعے حافظ شخص رضائے الہی چاہتا ہے اور آخرت میں ثواب لینا چاہتا ہے، اگر حافظ کی یہ نیت نہ ہو تو پھر اس کو کچھ بھی اجر نہیں ملے گا اور اس عبادت کو غیر اللہ کے لیے بجا لانے پر عذاب دیا جائے گا۔
حافظ قرآن کو چاہیے کہ قرآن مجید حفظ کر کے اس کے عوض میں دنیاوی فوائد کی تمنا مت کرے؛ کیونکہ قرآن مجید کو یاد کرنا ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کے عوض دنیا میں مارکیٹنگ کی جائے، بلکہ یہ ایک عبادت ہے جو انسان اللہ تعالی کے لیے کرتا ہے۔
اللہ تعالی نے حافظ قرآن شخص کو دنیا اور آخرت میں خصوصی امتیاز سے نوازا ہے، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
1- نماز کی امامت کے لیے اسے دوسروں پر ترجیح دی جائے گی۔
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگوں کی امامت وہ کروائے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو [یعنی حافظ ہو] ، اگر وہ اس میں یکساں ہوں تو پھر جو سب سے زیادہ سنت کا علم رکھنے والا ہو، اگر وہ علم حدیث میں بھی یکساں ہوں تو پھر جو سب سے پہلے ہجرت کر کے آیا ہو، اگر ہجرت میں برابر ہوں تو پھر جو سب سے پہلے اسلام لایا ہو۔ کوئی بھی شخص سلطان کی موجودگی میں سلطان کی امامت نہ کروائے اور نہ ہی اس کے گھر میں اس کی خاص مسند پر بیٹھے) مسلم: (673)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : جس وقت اولین مہاجرین قبا کے قریب عصبہ جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے قبل آئے تو ان کی امامت سالم مولی ابو حذیفہ کرواتے تھے کیونکہ آپ کو سب سے زیادہ قرآن مجید یاد تھا۔ بخاری: (660)
2- اگر مجبوری کی بنا پر حافظ کے ساتھ کسی اور کو قبر میں دفن کرنا پڑے تو قبلے کی جانب حافظ کو اور اس کے پیچھے دوسری میت کو دفن کریں گے۔
چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ احد کے جان نثاروں کو ایک ایک کپڑے میں کفن دیتے اور پھر فرماتے: ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد تھا؟ پس جب کسی کے بارے میں اشارہ کیا جاتا تو اسے لحد میں پہلے اتارتے۔ اور پھر فرمایا: میں روز قیامت ان سب کا گواہ ہوں، آپ نے جان نثاروں کو ان کے خون کے ساتھ غسل دئیے بغیر دفن کیا اور ان کی نماز جنازہ ادا نہیں فرمائی۔ بخاری: (1278)
3- اگر امارت اور سربراہی سنبھالنے کی استطاعت ہو تو حافظ قرآن کو ترجیح دی جائے گی۔
عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ نافع بن عبد الحارث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عسفان جگہ پر ملے، عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ کا گورنر مقرر کیا ہوا تھا، تو آپ نے ان سے پوچھا: اہل وادی پر کسے سربراہ مقرر کیا ہے؟ تو نافع نے کہا: ابن ابزی کو! عمر نے کہا: وہ کون ہے؟ نافع نے کہا: وہ ہمارے غلاموں میں سے ایک غلام ہے! عمر نے کہا: تم نے غلام کو ان کا سربراہ بنا دیا ہے؟ نافع نے کہا: وہ قرآن کا قاری ہے [یعنی قرآن کا حافظ ہے] اور انہیں فرائض [وراثت] کا علم بھی ہے، اس پر عمر نے کہا: تمہارے نبی نے [سچ] کہا ہے: (بیشک اللہ تعالی اس کتاب کی وجہ سے کچھ لوگوں کو عزت سے نوازتا ہے اور دوسروں کو ذلت سے) مسلم: (817)
آخرت میں حافظ کو ملنے والی امتیازی خوبیاں یہ ہیں:
4- حافظ قرآن کا جنت میں ٹھکانا وہاں ہو گا جہاں وہ آخری آیت پڑھے گا۔
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (صاحب قرآن سے کہا جائے گا، پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ نیز اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسے تم دنیا میں پڑھتے تھے ؛ کیونکہ تمہارا ٹھکانا وہیں ہو گا جہاں تم آخری آیت پڑھو گے) ترمذی: (2914) امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی (2329)میں سے حسن صحیح کہا ہے، نیز یہ روایت ابوداود: (1464) میں بھی ہے۔
اس حدیث میں پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ زبانی پڑھتا جا۔
5- حافظ قرآن فرشتوں کے ہمراہ اپنے گھروں میں ہو گا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور قرآن کا حافظ بھی ہے تو وہ نیک محرر فرشتوں کے ہمراہ ہو گا، اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے لیکن قرآن پڑھنا اس کےلئے مشکل ہو جاتا ہے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے) بخاری: (4653) مسلم: (798)
6- اسے معزز تاج اور مکرم لباس پہنایا جائے گا ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قرآن کریم قیامت کے دن آ کر کہے گا: پروردگار! اسے مزین فرما دے۔ تو اسے معزز تاج پہنایا جائے گا، پھر قرآن کہے گا: یا رب! مزید مزین فرما دے، تو پھر اسے مکرم لباس پہنایا جائے گا، پھر قرآن کہے گا: یا رب! اس سے راضی ہو جا، تو اسے کہا جائے گا: پڑھتا جا چڑھتا جا اور ہر ایک کے پڑھنے پر اس کا حسن دوبالا ہوتا جائے گا) اسے ترمذی: (2915) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا، نیز البانی رحمہ اللہ صحیح ترمذی (2328) میں اسے حسن کہتے ہیں۔
7- قرآن پڑھنے والے کے لیے قرآن اللہ تعالی کے ہاں شفاعت کرے گا۔
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: قرآن پڑھو؛ کیونکہ یہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کے لیے روزِ قیامت سفارشی بن کر آئے گا، تم زاہراوین یعنی سورت بقرہ اور آل عمران پڑھو یہ روزِ قیامت آئیں گی گویا کہ یہ دو بادل ہیں یا دو سائبان ہیں یا اڑنے والے دو پرندوں کے جھنڈ ہیں یہ اپنے پڑھنے والے کے لیے تکرار کریں گی۔ تم سورت بقرہ کی تلاوت کرو؛ کیونکہ سورت بقرہ کی تلاوت باعث برکت ہے، اسے چھوڑنا باعث حسرت ہے اور جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مسلم: (804) بخاری نے اسے معلق روایت کیا ہے۔
دوم:
جبکہ حافظ قرآن کے رشتہ داروں اور اولاد کے بارے میں ایک دلیل ملتی ہے کہ حافظ قرآن کے والدین کو دو لباس پہنائے جائیں گے جن کی قیمت دنیا وما فیہا بھی نہیں ہے، اس لیے کہ حافظ قرآن کے والدین نے اپنے بچے کی خوب محنت کے ساتھ پرورش کی اور اسے تعلیم دلوائی، چاہے حافظ قرآن کے والدین ان پڑھ ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالی پھر بھی ان کی عزت افزائی فرمائے گا، لیکن اگر کوئی اپنے بچے کو قرآن مجید حفظ کرنے سے روکتا ہو گا تو وہ محروموں میں شامل ہوگا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قیامت کے دن متغیر رنگت والے آدمی کی شکل میں قرآن مجید آ کر قرآن پڑھنے والے سے کہے گا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں ہی ہوں وہ جو تمہیں راتوں کو جگاتا تھا اور گرمی کے دنوں میں [روزے رکھوا کر ] پیاس برداشت کرواتا تھا۔ ہر تاجر کے سامنے اس کی تجارت ہوتی ہے اور میں آج تمہارے لیے کسی بھی تاجر سے پیش پیش ہوں گا، تو وہ حافظ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دے گا اور بائیں ہاتھ میں سرمدی زندگی دے گا، اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ دنیا و مافیہا بھی اس کے برابر نہیں پہنچ سکتے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمارے لیے کہاں سے ؟ تو انہیں کہا جائے گا: تم نے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی اس کے عوض ۔ طبرانی نے اسے معجم الاوسط: (6/51) میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص قرآن کریم پڑھے اور پھر اس کے احکام سیکھے نیز اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے والدین کو نور کا تاج پہنائے گا، اس کی روشنی سورج جیسی ہو گی، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ پوری دنیا بھی اس کے برابر نہ پہنچ سکے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمیں کس کے عوض پہنایا گیا؟ تو انہیں کہا جائے گا: تمہارے بچوں کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے۔) حاکم (1/756)نے اسے روایت کیا ہے۔
یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کو حسن درجے تک پہنچا دیتی ہیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سلسلہ صحیحہ (2829) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.