جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

خاوند كے سگرٹ نوشى ترك كرنے كى شرط ركھى ليكن خاوند نے مخالفت كى

20757

تاریخ اشاعت : 31-07-2016

مشاہدات : 4678

سوال

ميں نے پندرہ برس قبل جب عورت كا دين اسلام ميں مقام اور اس كے حقوق كا سنا توا سلام قبول كر ليا، ميرا سوال يہ ہے كہ:
ميں نے اپنى شادى سے قبل خاوند سے سمجھوتہ كيا تھا كہ ميں چاہتى ہوں ميرا خاوند سگرٹ نوشى نہ كرے، اس نے جواب ميں كہا ميں كتنى دير سے سگرٹ چھوڑنے كا سبب تلاش كر رہا تھا، اس نے ايك ماہ تك سگرٹ نوشى چھوڑى تو ميں نے اس سے شادى كرنے كى موافقت كر لى.
ليكن شادى كے بعد خاص كر رخصتى كى رات مجھے علم ہوا كہ اس نے سگرٹ نوشى ترك نہيں كى، بلكہ مجھے كہنے لگا ميں صبر سے كام لوں كيونكہ وہ سگرٹ نوشى چھوڑنے كى كوشش ميں ہے، اب پانچ برس بيت چكے ہيں اور ہمارے دو بچے بھى ہيں ليكن اس نے سگرٹ نوشى ترك نہيں كى.
كيا عورت كے ليے جائز ہے كہ اگر خاوند معاہدہ كى خلاف ورزى كرے تو وہ اس كا معاوضہ حاصل كر سكتى ہے يا نہيں، اور اگر مجھے اختيار حاصل ہے تو ميں اس دھوكہ كى حالت ميں نہيں رہ سكتى كيونكہ اس نے ميرے ساتھ دھوكہ كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال كرنے والى بہن نے سگرٹ نوشى ترك كرنے كى شرط پورى كرنے پر اس شخص سے شادى كرنے كى موافقت كر كے بہت اچھا كام كيا، اس پر وہ شكريہ كى مستحق اور يہ چيز قابل تعريف ہے.

كيونكہ سگرٹ نوشى بہت گندى اور برى عادت ہے، اور شرعا حرام بھى ہے، اور پھر فطرت سليمہ كے بھى مخالف ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ صحت كے ليے بھى نقصاندہ ہے، اور سگرٹ نوشى كرنے والے كے ساتھ رہنے والے شخص كے ليے بھى مضر و نقصان كا باعث ہے، يہ تو بالكل اس بھٹى والے شخص كى طرح ہے جس كے پاس بيٹھنے سے يا تو لباس جل جائيگا يا پھر گندى بو اور دھواں آئيگا.

ليكن سوال كرنے والى بہن پر تعجب يہ ہے كہ اس نے سگرٹ نوشى كا انكشاف ہو جانے كے باوجود اتنى مدت تك صبر و تحمل سے كام ليا، اور پانچ برس تك وہ اسے برداشت كرتى رہى اور اس دوران اس كے دو بچے بھى پيدا ہوئے، يہ چيز اس كى رضامندى پر دلالت كرتى ہے، يا پھر اس كے فعل كا اس نے كوئى نوٹس نہيں ليا، يہ تو معلوم ہے كہ اس طرح كے كام پر اتنى مدت تك صبر نہيں ہو سكتا.

نكاح سے قبل عورت جو شرائط اپنے خاوند پر لگاتى ہے اگر بعد ميں خاوند انكى مخالفت كرے تو عورت كو اختيار ہے كہ چاہے وہ نكاح فسخ كر دے، يا پھر اپنى شرط سے دستبردار ہو كر اپنے نكاح ميں اسى كے ساتھ باقى رہے.

عورت كا اپنى شروط سے دستبردار ہونا، يا پھر خاوند كى جانب سے اس شرط كى مخالفت كا علم ہو جانا اور اس مخالفت پر بيوى كا راضى ہونا ان شروط كو ساقط كرنے كا باعث بنتا ہے، اس حالت ميں بيوى كو مطالبہ يا نكاح فسخ كرنے كا حق نہيں رہتا.

اس مسئلہ ميں ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اگر سوال كرنے والى بہن ايك معقول مدت تك صبر كرتى، يا پھر وہ پہلے دن سے ہى جس دن اس نے سگرٹ نوشى كرتے ديكھا تو وہ اس نكاح ميں رہنے سے انكار كر ديتى تو اسے نكاح فسخ كرنے كا حق تھا، اور وہ اپنے پورے حقوق حاصل كر سكتى تھى، ليكن اگر خاوند مكمل اور حقيقى طور پر سگرٹ نوشى ترك كر ديتا تو پھر نہيں.

ليكن اس نے يہ سارى مدت اس خاوند كے ساتھ بسر كى اور اس دوران اس كے دو بچے بھى پيدا ہوئے اس ليے ہمارے خيال ميں اس عورت كو فسخ نكاح كا مطالبہ كرنے كا بھى حق نہيں تو پھر وہ خاوند كى جانب سے معاہدہ كى خلاف ورزى پر معاوضہ كيسے طلب كر سكتى ہے.

اور پھر خاوند كو بھى اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرنا چاہيے، اسے معلوم ہونا چاہيے كہ وہ جو كچھ كر رہا ہے وہ كبيرہ گناہ ہے، اور اس كے ساتھ اس نے وعدہ خلافى جيسے گناہ كا اور اضافہ بھى كيا ہے، كہ نكاح ميں پائى جانے والى شروط كا پاس نہيں كيا، كيونكہ نكاح كى شروط كى وفا كا سب سے زيادہ حق ركھتى ہيں، اس ليے كہ ان شروط كے ساتھ شرمگاہ حلال كى گئى ہے.

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سب سے زيادہ وفا كا حق ركھنے والى شروط وہ ہيں جن كے ساتھ تم شرمگاہ كو حلال كرتے ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2572 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب