الحمد للہ.
اہل علم کی سجدے کیلئے جانے کے انداز میں مختلف آراء ہیں، یعنی: کہ پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں یا پہلے گھٹنے رکھے جائیں، چنانچہ اس بارے میں ابو حنیفہ ، شافعی، اور احمد [رحمہم اللہ]کی ایک روایت کے مطابق نمازی اپنے ہاتھ زمین پر رکھنے سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے، بلکہ ترمذی رحمہ اللہ نے اس عمل کو اکثر اہل علم کی طرف منسوب کیا ہے، چنانچہ امام ترمذی اپنی سنن ترمذی: (2/57) میں کہتے ہیں:
"اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور ان کا خیال ہے کہ اپنے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے، اور جس وقت اٹھے تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھائے، اس موقف کے قائلین نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو دلیل بنایا ہے، آپ کہتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے تھے اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب کھڑے ہوتے تھے اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے" اس روایت کو ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
اور دارقطنی (1/345)اس کے بارے میں کہتے ہیں:
"یہ حدیث شریک سے صرف یزید بن ہارون نے ہی بیان کی ہے، پھر عاصم بن کلیب سے شریک کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرتا، جبکہ خود شریک قوی راوی نہیں ہے"
بیہقی رحمہ اللہ سنن (2/101)میں کہتے ہیں:
"اس حدیث کی سند ضعیف ہے"
البانی رحمہ اللہ نے اسے مشکاۃ (898) میں، اور ارواء الغلیل: (2/75) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر اہل علم جن میں ابن قیم رحمہ اللہ بھی شامل ہیں وہ اپنی کتاب : "زاد المعاد" میں اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں۔
اسی طرح جن علمائے کرام نے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھنے کا موقف اپنایا ہے، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ، اور انکے شاگرد رشید ابن قیم ، اور موجودہ علمائے کرام میں سے شیخ عبد العزیز بن باز ، اور شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہم اللہ جمیعا ہیں۔
جبکہ مالک، اوزاعی، اور محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو قدموں سے پہلے زمین پر رکھنا شرعی عمل ہے، اس کیلئے انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو دلیل بنایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو [سجدہ کیلئے]ایسے مت [جھکے جیسے] اونٹ بیٹھتا ہے، بلکہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے)
اس حدیث کو احمد: (2/381)، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع"(3/421) میں کہتے ہیں:
"اس حدیث کو ابو داود اور نسائی نے جید سند کیساتھ روایت کیا ہے"
اس حدیث کے بارے میں البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ سند صحیح ہے، اس سند کے تمام راوی ثقات راوی ہیں اور صحیح مسلم کے ہیں ماسوائے محمد بن عبد اللہ بن حسن کے یہ راوی "نفس الزکیہ" کے لقب سے مشہور ہے، لیکن یہ بھی ثقہ ہیں "
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے بارے میں اپنے فتاوی: (22/449) میں لکھا ہے:
"ہر دوصورت میں نماز جائز ہے، اس پر علمائے کرام کا اتفاق ہے، چنانچہ نمازی اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھے یا گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھے، ہر دو صورت میں تمام علمائے کرام کے نزدیک متفقہ طور پر نماز صحیح ہے، اختلاف صرف افضل میں ہے" انتہی
لہذا متلاشیان علم کو اسی طریقے پر عمل کرنا چاہیے جو اسے اپنی علمی تحقیق سے پر اطمینان محسوس ہو، اور عامی آدمی ایسے شخص کی بات مانے جس پر اُسے اعتماد ہو۔
واللہ اعلم.