منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

کیا وہ اپنے عیسائي ماموں سے پردہ کرے

21953

تاریخ اشاعت : 04-03-2005

مشاہدات : 10195

سوال

میری والدہ نصرانی تھی اورتقریبا سولہ برس سے وہ مسلمان ہوچکی ہے لیکن اس کا سارا خاندان ابھی تک نصرانیت پر قائم ہے ، اورمیں فی الحال ان کے ساتھ رہائش پزيرہوں جہاں پر میرا ماموں بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہائش پذیر ہے یعنی اسی گھرمیں جس میں رہتی ہوں ۔
میں نے اپنی سہیلیوں سے اس کا ذکر کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی موجودگی میں مجھے پردہ کرنا چاہیے ، لیکن میں ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کیونکہ وہ میرا محرم ہے چاہے وہ نصرانیت پر ہی قائم ہے ، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ کا ماموں آپ کا محرم ہے ، اس بنا پر آپ کے لیے جا‏ئز ہے کہ اس سے پردہ نہ کریں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے عورتوں کوان کے کفار خاندان والوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا ہو ۔

لیکن علماء کرام نے یہ شرط لگائي ہے کہ جس سے عورت پردہ نہ کرتی ہو اس کا امین ہونا ضروری ہے ، تویہ شرط ہرایک پر لگائي جائے گي چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ۔

اورانہوں نے عورت اوراس کے محرم کے مابین مصافحہ اوربوسہ لینے کے بارہ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اگر اس کا محرم امین نہیں وہ اس طرح کہ وہ اس عورت کی صفات دوسرے شخص سے بیان کرے گا یا پھر اس کے دیکھنے پر فتنہ پیدا ہو تواس سے بھی پردہ کرے گی چا ہے وہ مسلمان ہو یا کافر ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کے تفردات میں یہ بھی ہے کہ :

انہوں نے مسلمان عورت کے ساتھ سفر میں محرم کے مسلمان ہونے کی شرط لگائي ہے ، لیکن اس میں ان کے بعض اصحاب نے موافقت نہیں کی ، سفر ممیں مسلمان عورت کےکافر محرم کی ممانعت کی علت اس کی عدم امانت ہے ، اورخاص کرجب وہ مجوسی ہو ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے یہ ذکرکیا ہے کہ وہ اپنی والدہ کا محرم نہیں اس لیے کہ واس سے جماع کوجائز سمجھتا ہے ! ۔

اوربعض حنابلہ کا کہنا ہے کہ :

کہ یھودی اورنصرانی ہوسکتا ہے اسے بیچ دے یا پھر اسے قتل کردے ، توجب ہم اس علت کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ علت تو بعض فاسق قسم کے مسلمانوں پر بھی منطبق ہوتی ہے ، تواس طرح اس کا کافر ہونے جوکہ محرم ہونے میں مانع تھا زائل ہوا اورباقی جو عدم امانت اورعدم حفظ خیال نہ رکھنا باقی بچ گئي ۔

یہ تو محرم کے بارہ میں تھا ، اور کفار میں سے اجنبی کے بارہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ آیا کافرہ عورت کسی مسلمان عورت کو دیکھ سکتی ہے کہ نہیں ؟

تودونوں قولوں میں راجح یہ ہے کہ اس سے پردہ نہیں کیا جائے گا جس عورت سے یہ خدشہ نہ ہو کہ وہ اس کی صفات کسی اورکو بتائے گي چاہے وہ مسلمان عورت ہو یا کافرہ ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گیا :

کیا مسلمان عورت کے لیے خاص کرغیرمسلم عورت کے سامنے اپنے بال ننگے کرنے جائز ہیں ، یہ کہ وہ عورت اپنے عزيزواقارب مردوں کے سامنے اس کی صفات بیان کرے گی اوروہ سب غیر مسلم ہيں ؟

توشیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

یہ معاملہ مندرجہ ذيل آیت کی تفسیر میں علماء کرام کے اختلاف پر مبنی ہے :

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورمسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اوراپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں ، اوراپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس جوظاہر ہے ، اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں ، اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں ، ایاایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔ النور ( 31 )۔

تواللہ تعالی کے فرمان او نسائھن کی ضمیرمیں علماء کرام کا اختلاف ہے ، کچھ تو یہ کہتے ہيں کہ اس سے عمومی جنس عورت مراد ہے ، اورکچھ کا کہنا ہے کہ اس ضمیر سے وصف مراد ہے ، یعنی صرف مومن عورتیں مراد ہیں ۔

توپہلے قول کی بنا پر عورت کے لیے غیر مسلم عورت کے سامنے اپنے بال ننگے رکھنا جائز ہے ، اوردوسرے قول کی بنا پر ایسا کرنا جائز نہیں ۔

ہم بھی پہلی رائے کی طرف ہی مائل ہیں ، اوریہی قریب معلوم ہوتا ہے ،اس لیے کہ عورت عورت کے ساتھ ہے جس میں مسلم اورغیر مسلم کا فرق نہيں ، یہ اس وقت ہے جب کوئي فتنہ وغیرہ نہ ہو ، لیکن اگر فتنے کا خدشہ ہو مثلا عورت اپنے عزيز واقارب مردوں کواس کی صفات بیان کرے گی تواس وقت فتنہ سےبچنا ضروری ہے ، تواس لیے عورت اپنے جسم کا کوئي حصہ مثلا ٹانگیں یا اپنے بال کسی دوسری عورت کے سامنے ننگا نہ کرے چاہے وہ عورت مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔ واللہ تعالی اعلم ۔

دیکھیں کتاب : فتاوی المراۃ المسلمۃ ( 1 / 532 - 533 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب