الحمد للہ.
الحمدللہابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
مسئلہ :
اورجب شادی اس شرط پرہو کہ ایک ہزار لڑکی کو اورایک ہزار اس کے والدہ کودے گا ، یہ جائز ہے ، اگر اس نے دخول سے قبل ہی طلاق دے دی ۔۔
مجمل طور پر اس معاملہ میں عورت کے والد کے لیے جائز ہے کہ وہ بیٹی کے مہرمیں سے اپنے لیے بھی کچھ مخصوص کرنے کی شرط رکھے ۔
اسحاق رحمہ اللہ تعالی کا یہی کہنا ہے ۔ اوریہ بھی روایت کیا گيا ہے کہ مسروق رحمہ اللہ تعالی نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تواپنے لیے دس ہزار کی شرط رکھی تھی ، اوران دس ہزار کومساکین اورحج میں تقسیم کردیا اورپھر خاوند کو کہنے لگے اپنی بیوی کوتیارکرو ۔ علی بن حسین رحمہ اللہ تعالی سے بھی ایسی روایت ملتی ہے ۔
اورعطاء ، طاؤس ، عکرمہ ، عمربن عبدالعزيز ، ثوری ، ابوعبید رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ مکمل مہر عورت کا ہی ہوگا ، اس لیے مہر توصرف عورت کے لیے وہی واجب ہے کیونکہ یہ اس کے اپنے آپ کوسپرد کرنے کے بدلہ میں ہے ۔
لیکن ہماری دلیل شعیب علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
میں تیرےساتھ ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس شرط پر کرنا چاہتاہوں کہ میری آٹھ برس تک خدمت کرو ، توانہوں نے مہر ملازمت مقرر کی کہ بکریاں چرانی ہیں اوریہ شرط اپنے لیے لگائی ۔
اورپھر والد کے لیے جائز ہے کہ وہ اولاد کا مال لے لے ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے ) ۔
اورایک حدیث میں یہ فرمایا :
( بلاشبہ تمہاری اولاد تمہاری سب سے بہتر کمائی ہے لھذا تم ان کے مال سے کھاؤ ) ابوداود ، سنن ترمذي ، امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے ۔
تواس طرح اگر والد مہر میں سے کچھ خود لینے کی شرط لگاتا ہے تووہ بیٹی کے مال سے لینا ہو گا جوکہ اس کے لیے جائز ہے ، کیونکہ والد جوچاہے لے اورجوچاہے نہ لے ، جب والد بغیر کسی شرط کے مالک بن سکتا ہے تواسی طرح شرط سے بھی لے سکتا ہے ۔
اس میں شرط یہ ہے کہ والد اپنی بیٹی کا مال ضائع کرنے اور چھیننے والا نہ ہو اگر ایسا کرنے والا ہو تو پھر شرط صحیح نہيں ہوگی ، اورمکمل مہر بیٹی کوملے گا ۔
اورایک جگہ پرکہتے ہیں :
فصل : اگر والد کے علاوہ اولیاء میں سے کوئي اورشرط لگائے مثلا دادا ، نانا ، بھائي ، چچا تو پھر شرط باطل ہوگی ، امام احمد نے یہی کہا ہے اورمکمل مہر بیٹی کوہی ملے گا ۔ .