منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

خواتین کو سلام کرنے اور ان کے سلام کا جواب دینے کا حکم

39258

تاریخ اشاعت : 01-03-2016

مشاہدات : 28715

سوال

سوال: کیا مجھے اس چیز کی اجازت ہے کہ میں اجنبی خواتین کو سلام کروں؟ اجنبی سے مراد غیر محرم خواتین ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی نے سلام عام کرنے کا حکم دیا ہے اور سلام کا جواب واجب قرار دیا ،  بلکہ سلام کو ایسے امور میں شامل فرمایا جن کی وجہ سے مسلمانوں میں محبت اور الفت پیدا ہو۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا )
ترجمہ: جب تمہیں سلام کہا جائے تو تم اس سے اچھا سلام جواب میں کہو، یا وہی الفاظ لوٹا دو، بیشک اللہ تعالی ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے۔[النساء :86]

اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ، اور اس وقت تک ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک تم باہمی محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جس کے کرنے پر تم محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو عام کرو) مسلم: (54)

اور سوال نمبر: (4596) کے جواب میں سلام کی اہمیت اور سلام کا جواب دینے کے بارے میں تفصیلی گفتگو موجود ہے، اس کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔

دوم:

سلام عام کرنے کا حکم تمام مؤمنوں کیلئے ہے، اس میں مرد کو مرد کیساتھ اور عورت کو عورت کیساتھ سلام کی ترغیب دی گئی ہے، اسی طرح مرد اپنی محرم خواتین سے سلام کرے، چنانچہ ان تمام لوگوں کو سلام میں پہل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور سلام کا جواب دینا سب پر لازمی ہے۔

لیکن اجنبی مرد و خاتون کیلئے ایک دوسرے کو سلام اور اس کا جواب دینے کے بارے میں خاص حکم دیا گیا ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں بسا اوقات فتنے کا ڈر ہوتا ہے۔

سوم:

اگر اجنبی خاتون بوڑھی ہو تو مصافحہ کیے بغیر  انسان سلام کر سکتا ہے، لیکن نوجوان لڑکی کو فتنے سے بچنے کیلئے سلام نہیں کرنا چاہیے، اہل علم اسی بات کی طرف رہنمائی کرتے چلے آئے ہیں۔

چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا اجنبی عورت کو سلام کیا جائے؟"
تو انہوں نے کہا: بوڑھی عورت کو سلام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ، تاہم نوجوان لڑکی کو سلام مجھے پسند نہیں ہے۔

زرقانی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے اظہار نا پسندیدگی کی وجہ بیان کرتے ہوئے موطا کی شرح (4/385) میں لکھا ہے کہ:
"انہوں نے لڑکی کے سلام کی آواز سن کر فتنے میں مبتلا ہونے کے خدشے کی وجہ سے پسند نہیں کیا"

اسی طرح " الآداب الشرعية " (1/ 375) میں ابن مفلح رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ابن منصور نے امام احمد سے کہا:
"خواتین کو سلام کرنے کا کیا حکم ہے؟" تو انہوں نے جواب دیا: "اگر بوڑھی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے"

اسی طرح صالح بن امام احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے عورت کو سلام کرنے کے بارے میں پوچھا تو  انہوں نے کہا: "عمر رسیدہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، اور اگر نوجوان ہو تو اسے بولنے پر مجبور مت کرو" یعنی: سلام کا جواب دینا چونکہ واجب ہے اس لیے اگر تم اسے سلام کرو گے تو واجب کی ادائیگی کیلئے اسے بولنے پڑے گا۔

اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ اپنی کتاب: "الاذکار" صفحہ: 407 میں کہتے ہیں:
"ہمارے شافعی فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ: عورت کسی خاتون کو سلام کرے تو اس کا حکم مردوں کا آپس میں سلام کرنے والا ہی ہے، لیکن عورت مرد کو سلام کرے تو اس کی تفصیل ہے کہ اگر عورت اس مرد کی بیوی ہے یا لونڈی ہے یا کوئی بھی محرم رشتہ دار ہے تو اس کا حکم بھی مردوں کا مردوں سے سلام کا ہے، اس لیے ان سب کو دوسروں سے سلام میں پہل کرنی چاہیے، اور اگر کوئی انہیں سلام پہلے کر دے تو ان پر اسے جواب دینا واجب ہے۔
اور اگر اجنبی ہے تو خوبرو ہونے کی صورت میں سلام کرنے پر فتنے کا خدشہ ہے لہذا اسے سلام کرنا جائز نہیں ہوگا، اور اگر کوئی اسے سلام کر بھی دے تو اس کیلئے جواب دینا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح وہ خوبرو اجنبی عورت کسی کو سلام کرتے ہوئے پہل نہیں کریگی، اور اگر وہ کسی کو سلام کہہ دے تو اسے جواب دینا درست نہیں ہے، اور اگر جواب دے  دیا جائے تو یہ مکروہ ہوگا۔

اور اگر اجنبی خاتون بوڑھی اور عمر رسید ہے جس کو سلام کرنے پر فتنے کا خدشہ نہیں ہے تو مرد اسے سلام کر سکتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب بھی دے سکتے ہیں۔

اور اگر متعدد خواتین کو اکیلا آدمی سلام کہے یا متعدد مردوں پر ایک خاتون سلام کہے تو  ان سب میں سے ہر ایک کیلئے فتنے کے خدشات نہ ہونے کی صورت میں جائز ہوگا۔

ابو داود (5204) میں اسما بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "ہمارے پاس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا" [اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے]

اسی طرح بخاری (6248) میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: " ہمارے ہاں ایک بوڑھی خاتون تھی جو بضاعہ میں کھجوروں کے باغ سے چقندر  نکال  کر لاتی اور اسے جو کے ساتھ پیس  کر آمیزہ  بناتی ، چنانچہ جب ہم جمعہ پڑھ کر واپس ہوتے اور ہم اسے سلام کہتے تو وہ کھانا ہمارے لیے پیش کرتی تھی" امام نووی کا کلام مکمل ہوا

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری " میں کہتے ہیں:
"مردوں کا عورتوں کو اور خواتین کو مردوں کو سلام کرنے کا جواز اس وقت ہے جب فتنے کا خدشہ نہ ہو۔

اور حلیمی رحمہ اللہ سے منقول ہے وہ کہا کرتے تھے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ سے محفوظ تھے، اور آپ کو اللہ کی طرف سے حفاظت ملی ہوئی تھی، لہذا اگر کوئی شخص اپنے بارے میں یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ فتنہ میں نہیں پڑے گا تو سلام کر لے بصورت دیگر خاموشی میں ہی عافیت ہے۔

اسی طرح مہلب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مردوں کا عورتوں کو اور خواتین کو مردوں کو سلام کرنا اس وقت جائز ہے جب فتنے کا اندیشہ نہ ہو" انتہی مختصراً

واللہ اعلم

مزید کیلئے دیکھیں: " أحكام العورة والنظر" اعداد / مساعد بن قاسم الفالح.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب