جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى كى جانب سے گانے اور موسيقى كى حرمت كا بيان

43736

تاریخ اشاعت : 22-10-2007

مشاہدات : 10935

سوال

ميں نے ايك كالم پڑھا جس ميں كالم نگار نے موسيقى كو مباح قرار ديا، اور اسے حرام كہنے والے كا رد كيا ہے، اور كالم ميں اس نے فوت شدہ موسيقاروں اور فنكاروں كى آواز ميں گانے دوبارہ نشر كرنے پر ابھارا ہے تا كہ ان كى ياد تازہ رہے، اور جس فن كا مظاہرہ انہوں نے اپنى زندگى ميں كيا تھا وہ باقى رہے، اور زندہ افراد ان كے اس فن كو سننے اور ديكھنے سے محروم نہ ہوں.
كالم نگار كہتا ہے: موسيقى اور گانے كى حرمت كے متعلق قرآن مجيد ميں كوئى نص نہيں ملتى، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے ليے بہترين نمونہ ہيں، وہ بھى موسيقى اور گانے سنا كرتے تھے، اور عيد كے تہوار اور مختلف مواقع مثلا شادى بياہ اور خوشى كے مواقع پر اس كا حكم ديا كرتے تھے.
پھر كالم نگار كہتا ہے: كچھ ضعيف احاديث ملتى ہيں جن سے موسيقى منع كرنے والے افراد استدلال كرتے ہيں، غالب رائے يا كسى ايسے معاملے كو جس كى كچھ موافقت نہ كريں صادق اور امين كى طرف منسوب كرنا صحيح نہيں، پھر اس نے موسيقى كى اباحت كے متعلق بعض علماء كى آراء ذكر كى ہيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس كالم كے رد ميں مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى كا بيان جارى ہوا جو ذيل ميں بيان كيا جاتا ہے:

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كہتے ہيں:

" ان شبہات كے رد كے ليے كميٹى نے درج ذيل فيصلہ كيا ہے:

اول:

شرعى معاملات ميں صرف شريعت كى سمجھ بوجھ ركھنے والے جن كے پاس بحث و تحقيق كى اہليت ہو وہى غور خوض كر سكتے ہيں، ان كے علاوہ كسى اور كے ليے شرعى معاملات ميں دخل دينا جائز نہيں، اور يہ كالم نگار ( جس نے يہ كالم لكھا ہے ) وہ شرعى طلباء ميں شامل نہيں ہے لہذا اس كے ليے اس مسئلہ ميں دخل اندازى كرنا جائز نہيں جو اس كے اختصاص ميں شامل نہيں ہے، اور اسى ليے وہ كئى ايك جہالتوں ميں پڑا ہے، ايك تو اس نے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر وہ بات كہى ہے جس كا اسے علم ہى نہيں، اور يہ چيز گناہ اور قارئين كو گمراہ كرنے كا باعث ہے.

اسى طرح اخبارات اور ميگزين وغيرہ ميڈيا كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ شرعى مسائل پر ايسے شخص كو كالم لكھنے كا موقع ديں جس كے پاس شرعى علم ہى نہ ہو، اور وہ ايسے مسائل ميں قلم اٹھائے جو اس كے اختصاص ميں شامل نہيں، تا كہ مسلمانوں كے عقائد كو بچايا جا سكے.

دوم:

مرنے كے بعد ميت كو صرف وہى چيز فائدہ دے سكتى ہے جس كى كوئى شرعى دليل مل جائے، اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم نے بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس كے اعمال كا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، ليكن تين قسم كے اعمال جارى رہتے ہيں: صدقہ جاريہ، يا پھر نفع مند علم، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرتى ہو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1631 ).

ليكن وہ معاصى اور گناہ جو ميت نے اپنى زندگى ميں كيے تھے اور اس نے موت سے قبل ان گناہوں سے توبہ نہ كى تھى ـ جن ميں گانے بھى شامل ہيں ـ اس كى سزا ميں اسے عذاب ديا جائيگا، الا يہ كہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنا فضل و كرم كرتے ہوئے اسے معاف كردے.

اس ليے اس كى موت كے بعد اس كى وہ معصيت و گناہ والى اشياء دوبارہ زندہ نہيں كرنى چاہيے تا كہ اس كى زندگى ميں كي گئى معاصى ميں اور بھى گناہ زيادہ نہ ہو، كيونكہ اس كا نقصان دوسرے كو بھى ہوتا ہے.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم كا فرمان ہے:

" اور جس كسى نے بھى اسلام ميں كوئى برى چيز ايجاد كى تواس كا گناہ اور اس پر عمل كرنے والے كا گناہ بھى اسے ايجاد كرنے والے كے ذمہ ہے اور ان كے گناہوں ميں كسى بھى قسم كى كمى نہيں كى جائيگى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1017 ).

سوم:

اور اس كا يہ كہنا كہ:

( قرآن مجيد ميں گانے بجانے اور موسيقى كى حرمت پر كوئى نص نہيں ملتى ) تو يہ اس كى جہالت كا واضح ثبوت ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور لوگوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو لہو الحديث خريدتے ہيں، تا كہ لوگوں كو بغير علم اللہ كى راہ سے روك سكيں، اور اسے مذاق بنائيں، يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليے ذلت آميز عذاب ہو گا لقمان ( 6 ).

اكثر مفسرين حضرات كہتے ہيں كہ: " لہو الحديث " سے مراد گانا بجانا ہے.

اور كچھ حضرات كا كہنا ہے كہ: آلات موسيقى كے ہر آلہ كى آواز اس ميں داخل ہے، مثلا بانسرى، باجا، سارنگى، وغيرہ كى آواز يہ سب كچھ اللہ تعالى كى راہ سے روكنے والى ہيں، اور ضلالت و گمراہى كا سبب ہيں.

صحابہ كرام ميں سے جليل القدر صحابى و عالم دين ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے ثابت ہے كہ انہوں نے اس آيت كى تفسير ميں فرمايا:

اللہ كى قسم يہ گانا بجانا ہے، اور ان كا كہنا ہے: يہ دل ميں اس طرح نفاق پيدا كرتا ہے جس طرح پانى سبزہ اگاتا ہے.

اس موضوع كى احاديث بہت ہيں جو سب گانے بجانے اور اس كے آلات كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں، اور يہ كہ يہ بہت سارے شر اور برے انجام كا وسيلہ ہے، علامہ ابن قيم رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " اغاثۃ اللھفان " ميں گانے بجانے اور آلات موسيقى كے موضوع پر تفصيلا كلام كى ہے.

چہارم:

كالم نگار نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ بولتے ہوئے يہ منسوب كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم موسيقى اور گانے سنا كرتے تھے، اور عيد اور مختلف تہوار مثلا شادى بياہ اور خوشى كے موقع پر اس كا حكم ديا كرتے تھے.

حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو صرف يہ ثابت ہے كہ آپ نے بطور خصوص صرف دف بجانے كى اجازت دى ہے اور اس ميں بھى ناچ اور عشق و محبت كے اشعار نہ ہوں، اور موسيقى كے آلات استعمال نہ ہوں، اور صرف عورتوں ميں ہى ہو مرد اس ميں شامل نہ ہوں، آج كل كے گانوں كى طرح نہيں جس ميں يہ سب كچھ پايا جاتا ہے.

بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو نكاح كا اعلان كرنے كے ليے شادى بياہ كے موقع پر دف بجانے كے ساتھ صرف وہ اشعار پڑھنے كى اجازت دى ہے جو ان قبيح قسم كے اوصاف سے خالى ہوں، اور اس ميں ڈھول باجا اور دوسرى آلات موسيقى استعمال نہ كيے جائيں.

بلكہ صحيح حديث ميں تو يہ ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر قسم كے موسيقى كے آلات حرام كيے ہيں، اور انہيں استعمال كرنے پر شديد قسم كى وعيد سنائى ہے، جيسا كہ درج ذيل صحيح بخارى كى حديث ميں بيان ہوا ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقى حلال كر لينگے، اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگى تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئينگے، اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہينگے كل آنا، تو اللہ تعالى انہيں رات كو ہى ہلاك كر ديگا، اور پہاڑ ان پر گرا دے گا، اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا "

يہاں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زنا كارى، اور مردوں كے ليے ريشم پہننا، اور شراب نوشى كرنا، اور گانے اور موسيقى سننا اور آلات موسيقى كا استعمال حرام كيا اور اسے زنا و شراب اور مردوں كا ريشم پہننا كے ساتھ ذكر كيا ہے، جو آلات موسيقى اور گانے بجانے كى شديد قسم كى حرمت پر دلالت كرتا ہے.

پنجم:

كالم نگار كا يہ كہنا كہ: كچھ ايسى ضعيف احاديث ہيں جن سے موسيقى اور گانے بجانے سے روكنے والے استدلال كرتے ہيں، اكثر رائے، يا كسى ايسے معاملے سے منع كرنا جس سے بعض موافق نہ ہوں كى بنا پر ان احاديث كا صادق و امين كى طرف منسوب كرنا صحيح نہيں.

يہ كلام سنت نبويہ سے اس كالم نگار كى جہالت پر دلالت كرتى ہے كيونكہ گانے بجانے كى حرمت كے كچھ دلائل تو قرآن مجيد ميں ہيں، اور كچھ صحيح بخارى ميں، جيسا كہ اوپر كى سطور ميں بيان ہو چكا ہے، اور كچھ دلائل احاديث كى دوسرى كتب ميں ملتے ہيں، ان احاديث سے ہى سابق علماء كرام نے گانے بجانے اور آلات موسيقى كى حرمت پر استدلال كيا ہے.

ششم:

اس نے بعض علماء كى جس رائے كے متعلق ذكر كيا ہے كہ كچھ علماء گانا بجانا حباح قرار ديتے ہيں، تو ان كى يہ رائے ان دلائل كى بنا پر مردود ہے جو اس كى حرمت پر دلالت كرتے ہيں، معتبر تو وہ ہے جس كى دليل موجود ہو، نہ كہ جس كى مخالفت كى جائے، كيونكہ ہر كسى كا قول ليا بھى جا سكتا ہے، اور اسے ترك بھى كيا جا سكتا ہے، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول كو رد اور ترك نہيں كيا جا سكتا.

اس ليے اس كالم نگار پر واجب ہے كہ اس نے جو كچھ لكھا ہے اس سے اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كرے، اور بغير كسى علم كے نہ تو اللہ تعالى اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر كوئى بات كرے، كيونكہ بغير علم كے اللہ تعالى پر بات كرنا كتاب اللہ ميں شرك كا قرين ذكر كيا گيا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى سب كو حق پہچاننے اور اس پر عمل كرنے كى توفيق عطا فرمائے.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے. انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى سعودى عرب.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب