جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

خلافت کا قیام پہلے ہے یا کہ تعلیم دین ؟

5273

تاریخ اشاعت : 12-10-2003

مشاہدات : 9763

سوال

ہمارے ان موجود حالات جبکہ خلیفہ کا کوئ وجود نہیں کس چيز کواولیت دینی واجب ہے ؟
کیا ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم اسلامی خلافت قائم ہونے سے قبل لوگوں کو دینی تعلیم دیں یا یہ واجب ہے کہ پہلے اسلامی حکومت قائم کریں ؟
یا یہ دونوں کا برابر رکھنا واجب ہے ؟ اس میں جمہور علماء کرام کی راۓ ہے یا پھر صحیح راۓ کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


ہرمسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ حسب استطاعت دین قائم کرے ، اورامامت وخلافت بھی اللہ تعالی کے دین کوقائم اورنافذ کرنے کے لیے مشروع کی گئ ہے ، لھذا کوئ بھی یہ خیال اورگمان نہ کرے کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی دورمیں امام یا خلیفہ کے نہ ہونے مطلب یہ ہے کہ دین کومعطل کردیا جاۓ اوراس میں سستی کی جاۓ اوراس میں سے کچھ ہر عمل نہ کیا جاۓ ۔

موجود دور اوراس سے پہلے بھی کچھ ایسے لوگ پاۓ جاتے ہيں جن کا نظریہ ہے کہ دینی شعائر کواس وقت تک معطل رکھا جاۓجب تک کہ خلیفۃ المسلمین اورایک اسلامی مملکت کا قیام عمل میں نہ لایا جاۓ ، یہ نظریہ اورقول گمراہی کی سب سے بدترین شکل ہے جوکہ نمازجمعہ اورجماعت اورحج اورجھاد کومعطل کرکے رکھ دیتی ہے ۔

اوراسی طرح زکاۃ کا جمع کرنا بھی معطل قراردیتا ہے اورنہ ہی نماز استسقاء اوراسی طرح نمازعیدین اورمساجد میں اماموں اورمؤذنوں کی تعیین بھی نہیں کی جاسکتی اوراس کے علاوہ اوربھی بہت سے احکام دین کومعطل کرنا چاہتے ہیں یہ نظریہ رکھنے والوں کواللہ تعالی کا یہ فرمان نظر نہیں آتا :

تم میں جتنی طاقت و استطاعت ہے اتنا ہی اللہ کا تقوی اختیار کرو ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو کہاں لے جائيں گے ؟

( میں نے تمہیں جوحکم دیا ہے اس پراپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو )

تواس لیے اموردین میں سب سے پہلے اہم اہم کاموں کواہمیت دینی چاہیۓ اوران کا خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے ہم اللہ تعالی کے دین کا تفقہ اختیار کريں گے اوراسی طرح عقیدہ توحید کوسب سے زيادہ اہمیت دیں گے پھر اس کے بعد ظاہری اسلامی شعائر پرعمل پیرا ہوکر بعد میں جودوسرے واجبات ہیں ان پر عمل پیرا ہوا جاۓ گا ، اس میں کوئ شک نہیں کہ یہی کام سب سے زيادہ اہم ہے ۔

اوراسی طرح ہراس دینی معاملہ پربھی جس پر قدرت وطاقت ہو ، بلکہ اسلامی مملکت کا قیام تو اس وقت ہوا جب ایمان و توحید اورشرک سے نجات اوردین کا تفقہ پیدا ہوچکا تھا جس طرح کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے مندرجہ ذیل فرمان میں بھی ذکر کیا ہے :

اللہ تعالی نےتم میں سے ایمان والوں اوراعمال صالحہ کرنے والوں کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین میں حکومت دی جاۓ گی جس طرح ان سے پہلے لوگوں کی دی گئ اورہم ان کے لیے ان کے لیے پسندکیے گۓ دین کوآسان کردینگے ، اورانہیں خوف کے امن دیں گے وہ میری عبادت کرینگے اورمیرے ساتھ شرک نہیں کریں گے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تیرہ برس ( 13 ) تک دعوت الی اللہ کا کام کرتے اورلوگوں کوتوحید اورعقیدہ سکھاتے رہے اوران پر وحی کی تلاوت کرتے اورکفار کے ساتھ اچھے انداز میں مجادلہ کرتے رہے اوران کے دی گئ تکالیف پر صبر کرتے ہوۓ اپنی نماز اوراس وقت کی دوسری مشروع عبادت کوبجالاتے رہے ، انہوں نے توتعلیم دین کونہیں چھوڑا حالانکہ مکہ میں اس وقت اسلامی مملکت کا قیام تو نہيں ہوا تھا ۔

پھریہ بھی ہے کہ اسلامی مملکت کے قیام کا عقیدہ کی اساس اوراسلامی معاشرہ قائم ہونے اوراس پر عمل و تربیت اور دین سیکھنے اورقائم کرنے کے بغیر کیسے ممکن ہے ؟ اورجس نے بھی یہ کہا ہے کہ ( اپنے آپ میں اسلامی مملکت قائم کرو توزمین پربھی اسلامی حکومت قائم ہوجاۓ گی ) اس نے سچ کہا اوروہ اپنی اس بات میں صادق ہے ۔

اللہ تعالی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اوران کے صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم پر رحمتیں نازل فرماۓ ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد