جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

جن كا انسان كو خبطى كرنا اور اس پر مرتب ہونے والے احكام

73412

تاریخ اشاعت : 07-01-2021

مشاہدات : 14563

سوال

كيا جن كا انسان كو چمٹنا ممكن ہے، اور اگر ايسا ممكن ہے تو روز قيامت وہ اس حالت ميں اپنے اعمال كا ذمہ دار كيسے بنے گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جى ہاں جن كا انسان كو لگنا اور چمٹنا ممكن ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں اس كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:

جو لوگ سود خورى كرتے ہيں وہ كھڑے نہ ہونگے مگر اس طرح جس طرح وہ كھڑا ہوتا ہے جسے شيطان چھو كر خبطى بنا دے البقرۃ ( 275 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 11447 ) اور ( 42073 ) اور ( 39214 ) اور ( 1819 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل سنت والجماعت كے آئمہ كرام كا اتفاق ہے كہ جن انسان كے جسم ميں داخل ہو جاتا ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جو لوگ سود خورى كرتے ہيں وہ كھڑے نہ ہونگے مگر اس طرح جس طرح وہ كھڑا ہوتا ہے جسے شيطان چھو كر خبطى بنا دے البقرۃ ( 275 ).

اور صحيح بخارى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا شيطان ابن آدم ميں اس طرح سرايت كر جاتا ہے جس طرح خون سرايت كرتا ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 24 / 276 - 277 ).

دوم:

جن كا لگنا ايك قسم كى بيمارى ہے، اگر انسان اس بيمارى كى موجودگى ميں اپنے ہوش و حواس قائم ركھتا ہو، اور وہ عاقل ہو اور اسے اختيار بھى حاصل ہو تو پھر اس حالت ميں وہ اپنے اقوال و افعال كا ذمہ دار ہے اس كا مؤاخذہ ہو گا.

ليكن اگر يہ مرض اس پر غلبہ كر لے يعنى اس كے ہوش و حواس قائم نہ ہوں، اور نہ اسے كوئى اختيار ہو تو وہ مجنون اور پاگل كى طرح ہے اور وہ مكلف نہيں، اسى ليے لغت عرب ميں المس كا اطلاق جنون پر ہوتا ہے.

ديكھيں: لسان العرب ( 6 / 217 ).

ليكن اگر اس مرض كى حالت ميں كسى دوسرے پر زيادتى كرے اور اس كا مال تلف و ضائع كر دے تو اس مال كى ادائيگى كا ضامن ہو گا.

ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 66 - 71 ).

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ جنون اور پاگل پن بےہوشى اور نيند كى طرح ہے، بلكہ اختيار ختم ہونے اور بےہوش كى عبارات كے باطل ہونے ميں ان دونوں سے زيادہ شديد ہے، اور سوئے ہوئے كے قولى تصرفات مثلا طلاق اور اسلام، اور ارتداد، اور خريد و فروخت وغيرہ دوسرے قولى تصرفات ميں، اس ليے جنون كے ساتھ ان كا باطل ہونا زيادہ اولى ہے.

كيونكہ مجنون كى عقل اور تميز اور اہليت نہيں ہے، انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان سے استدلال كيا ہے:

" تين قسم كے افراد سے قلم اٹھا لى گئى ہے: سوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے اور مجنون سے حتى كہ وہ ہوش ميں آ جائے "

اسے اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

اور ہر وہ قولى تصرف جس ميں ضرر پايا جائے وہ اسى طرح ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 16 / 106 ).

اور ايك دوسرے مقام پر درج ہے:

" اور رہا مسئلہ حقوق العباد مثلا ضمان وغيرہ كا تو يہ ساقط نہيں ہونگے؛ كيونكہ يہ اس كے ليے تكليف نہيں، بلكہ يہ اس كے ولى كے ذمہ ہيں، كہ وہ مجنون كے مالى حقوق كى ادائيگى مجنون كے مال سے كرے، اس ليے اگر اس سے جرائم واقع ہوں تو اس سے مالى ليےجائينگے بدنى نہيں، اور اگر وہ كسى انسان كا مال تلف و ضائع كر ديتا ہے اور وہ مجنون تھا تو اس پر اس كى ضمان ہو گى، اور اگر وہ جنون كى حالت ميں كسى شخص كو قتل كر ديتا ہے تو قتل كى ديت واجب ہو گى " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 16 / 107 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب