منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

ميكے والے سسرال كے ساتھ رہنے پر اعتراض كرتے ہيں

96455

تاریخ اشاعت : 16-12-2012

مشاہدات : 3704

سوال

چار ماہ قبل ميرى شادى ہوئى اور ميں نے بيوى سے وعدہ كيا تھا كہ ميں اسے عليحدہ ركھوں گا، ليكن ميرے شہر ميں رہائش ملنى بہت مشكل ہے اس ليے ميں نے بيوى سے كہا كہ ہم عارضى طور والدين كے ساتھ ہى رہتے ہيں، تو كيا بيوى كے والدين كو اس پر اعتراض كرنے كا حق حاصل ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رہائش بيوى كے حقوق ميں شامل ہے كہ بلا اختلاف خاوند پر اپنى بيوى كو رہائش لے كر دينا واجب ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے رجعى طلاق والى عورت كے ليے اس كے خاوند پر رہائش دينا واجب كرتے ہوئے فرمايا ہے:

انہيں تم اپنى استطاعت كے مطابق رہائش ميں ركھو جہاں تم خود رہتے ہو .

لہذا جو نكاح ميں ہو اس كے ليے تو رہائش بالاولى واجب ہوگى؛ اور اس ليے بھى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كے مابين حسن معاشرت كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو .

جس حسن معاشرت اور حسن سلوك كا حكم ديا گيا ہے اس ميں بيوى كو ايسى رہائش ميں ركھنا جہاں اس كى جان اور مال محفوظ ہو واجب ہے، اسى طرح بيوى رہائش سے كبھى مستغنى نہيں ہو سكتى تا كہ وہ لوگوں كى آنكھوں سے محفوظ رہے اور چھپ سكے اور مال و متاع كى حفاظت كر سكے اسى ليے خاوند كے ذمہ اسے رہائش فراہم كرنا واجب قرار ديا گيا ہے.

جمہور فقھاء كرام جن ميں احناف شافعيہ اور حنابلہ شامل ہيں كا كہنا ہے بيوى كے ليے خاوند كے عزيز و اقارب اور رشتہ داروں سے عليحدہ اور مستقل رہائش لے كر دينا بيوى كا حق ہے، اور بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ خاوند كے والدين اور كسى رشتہ دار كے ساتھ رہنے سے انكار كر دے.

مالكيہ نے شريف اور خراب بيوى كے مابين فرق كرتے ہوئے كہا ہے كہ شريف قسم كى بيوى اور اس كے ساس سسر كو ايك ہى رہائش ميں ركھنا جائز نہيں؛ ليكن اگر بيوى خراب ہو تو پھر ايسا كرنا جائز ہے.

اور اگر غلط بيوى كو اپنے ساس سسر كے ساتھ رہنے ميں كوئى واضح ضرر ہو تو پھر جائز نہيں ہوگا.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 25 / 109 ) اور الشرح الصغير على مختصر خليل ( 2 / 737 ).

ليكن فقھاء كے ہاں رہائش سے مقصود وہ مكان ہے جس ميں بيوى كو پورے حقوق حاصل ہوں، اور اس كا دروازہ عليحدہ ہو جسے وہ بند كر سكے اور بيت الخلاء اور باروچى خانہ بھى ہو ليكن اگر وہ فقير ہوں جو مشترك باورچى خانہ اور بيت الخلاء استعمال كرنے پر راضى ہو جائيں.

ابن عابدين لكھتے ہيں:

" قولہ: " عليحدہ گھر " يعنى جس ميں رات بسر كى جائے اور وہ عليحدہ معين جگہ ہو....

ظاہر يہى ہوتا ہے كہ عليحدہ اور منفرد سے مراد يہ ہے كہ جو اس بيوى كے ليے مخصوص ہو اور اس ميں گھر كا كوئى دوسرا فرد شريك نہ ہو.

قولہ: " لہ غلق " دروازہ ہو زبر كے ساتھ جسے چابى كے ساتھ كھولا اور بند كيا جا سكے ..

قولہ: اور اس كے ساتھ باروچى خانہ اور بيت الخلاء ہو " يعنى بيت الخلاء اور باروچى خانہ كھانا پكانے كى جگہ گھر كے اندر يا صحن ميں ہو، جس ميں كوئى دوسرا شريك نہ ہو.

ميں كہتا ہوں: يہ فقراء كے علاوہ دوسروں كے ليے ہونا چاہيے جو حويليوں اور بنگلوں ميں رہتے ہيں؛ اس طرح كہ ہر ايك كے ليے عليحدہ رہائش ہو، اور بعض مشتركہ اشياء مثلا بيت الخلاء، تندور، پانى بھى ہوں.

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 600 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 7653 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

جب بيوى عقل و رشد والى ہے اور اس نے آپ كے والدين كے ساتھ رہنا قبول كر ليا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہوئى ہے، اور اس كے والدين كو اس پر اعتراض كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں.

اور اسے يہ بھى حق ہے كہ وہ اس اتفاق كو ختم بھى كر سكتى ہے، كيونكہ اس حق سے دستبردار ہونے سے اس كا عليحدہ رہائش والا حق ختم نہيں ہوگا.

سوم:

بيوى كو اپنے والدين كے ساتھ ركھنے ميں كوئى ايسا ممنوعہ كام نہيں ہونا چاہيے جو شريعت نے منع كيا ہے مثلا خلوت ميں كوئى دخل اندازى نہ كرے، اور خاوند كا كوئى بھائى اس كو معلوم نہ كر سكے.

يہ سب كو معلوم ہے كہ عورت كے ليے اپنے ديور وغيرہ كے ساتھ مصافحہ كرنا اور خلوت كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ سب اس كے ليے باقى غير محرم اور اجنبى مردوں كى طرح ہى ہيں، بلكہ ان سے زيادہ احتياط كرنا ہوگى.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كرو "

ايك انصارى شخص نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ذرا ديور اور خاوند كے رشتہ دار مردوں كے متعلق بتائيں ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ديور تو موت ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4934 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2172 ).

ليث بن سعد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" الحمو: خاوند كے رشتہ دار مرد مثلا ديور جيٹھ اور چچا كا بيٹا وغيرہ ہيں " اسے مسلم نے روايت كيا ہے.

بيوى اور خاوند كے گھر والوں كے حال كو بھى مقيد كرنا چاہيے كہ آيا طرفين رہائش ميں شراكت كر بھى سكتے ہيں يا نہيں، اور معاش ميں اختلاط كے متحمل بھى ہيں يا نہيں، آج كل كے حالت كو ديكھتے ہوئے يہ ثابت ہوا ہے كہ اس طرح كے حالات ميں اكٹھى رہائش اختيار كرنا ازدواجى زندگى پر بہت اثرانداز ہوتا ہے.

اور اكثر گھريلو مشكلات رہائش ميں اسى اختلاط كى بنا پر پيدا ہوتى ہيں، حتى كہ اكٹھى رہائش ميں رہتے ہوئے تو اب خاوند اور بيوى كى ازدواجى زندگى اچھى گزرنے كى مثال نادر ہى ملتى ہے.

ہو سكتا جيسے سب لوگ يہى خيال كرتے ہيں آپ كى بيوى كے والدين بھى اسى كو مدنظر ركھتے ہوئے اور اپنى بيٹى كى ازدواجى زندگى كو محفوظ ركھنے كے ليے آپ كا اپنے والدين كے ساتھ رہائش اختيار كرنے پر اعتراض كرتے ہوں، نہ كہ آپ اور آپ كى بيوى كے مخصوص معاملہ ميں دخل اندازى كرتے ہوئے، يعنى وہ دخل اندازى كا ارادہ نہيں ركھتے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو ايسے اعمال كى توفيق نصيب فرمائے جس ميں خير و اصلاح پائى جاتى ہے اور آپ كى بيوى اور آپ كے گھر والوں كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب