جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

حجاج کرام کے واپس آنے پر گھر کی زیبائش و آرائش کرنا اور خوشی منانا

97879

تاریخ اشاعت : 11-10-2014

مشاہدات : 9947

سوال

سوال: حجاج کرام کے واپس آنے پر گھر کی زیبائش کرنا، اور حجاج کرام کو کہنا: "حجاً مبروراً" [اللہ تعالی آپکا حج مبرور بنائے] اور اس خوشی میں تقریب منعقد کرنا، اسکا کیا حکم ہے، اور کیا یہ خود ساختہ بدعات میں شمار ہوگا؟ دلیل کے ساتھ ذکر کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سنت نبوی میں حجاج  کی واپسی پر  روشنیاں کرنا، اور بیل بوٹوں سے گھر کی آرائش کرنے کے بارے میں کوئی  تعلیمات  نہیں ہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سےایسا کچھ ثابت ہے، جبکہ کچھ معاصر اہل علم نے  اس کام کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا ہے، اور ممانعت کیلئے کچھ اسباب بھی ذکر کئے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1- چونکہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپکے صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے، اس لئے یہ بدعت ہے۔

2- اس عمل میں ریا کاری کا شائبہ پایا جاتاہے۔

3- اس سے مال کا ضیاع ہوتا ہے۔

ہمیں غور و فکر کرنے پر جو محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ: یہ عمل جائز ہے، اور فاضل علمائے کرام نے ممانعت کی وجوہات بیان کی ہیں وہ اس عمل کی تحریم کیلئے ناکافی ہیں، اور انکی ذکر کردہ وجوہات کا جواب درج ذیل سے دیا جاسکتا ہے:

1-  یہ عمل عام عادات میں سے ہے، عبادات میں سے نہیں ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام سے غیر ثابت شدہ ہونے کی بنا پر اس کام سے روکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ عادات کے بارے میں یہ اصول مشہور ہے کہ : عادات اصل میں جائز ہوتی ہیں، اور دلیل عادات سے منع کرنے والا شخص ہی دیگا۔

2- عام طور پر زیبائش کیلئے کیا جانے والا کام معمولی نوعیت  کا ہوتا ہے، جس کیلئے بہت زیادہ پیسہ نہیں لگانا پڑتا، اور جن لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے: وہ کچھ بیل بوٹے ، اور لکڑی کی کچھ اشیاء آرائش کیلئے استعمال کرتے ہیں،  وہ عام طور پر انکے پاس موجود ہوتی ہیں، اور ہمیں ان چیزوں کو فروخت کرنے کیلئے کوئی ایسی دکان بھی نظر نہیں  آئی جہاں [صرف حجاج کی آمد کیلئے تقریبات منانے کیلئے مختص ]سامان موجود ہو، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی تقریبات  کی تیاری کیلئے کوئی زیادہ خرچہ نہیں آتا، کہ لوگوں کو فضول خرچی  کی وجہ سے منع کیا جائے، ہاں یہ بات اہل ثروت اور مالدار افراد پر کہی جاسکتی ہے کہ وہ فضول خرچی کرتے ہیں، لیکن اس پر بھی یہی جواب دیا جاسکتا ہے کہ انکے پاس اتنا  مال موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اسراف میں داخل ہی نہیں ہوتے۔

3- ایسے کام کرنے سے ریا کاری کرنا لازم نہیں آتا، کیونکہ حج مخفی عبادات میں شامل نہیں ہے کہ حج کے اعلان پر ریاکاری کا شائبہ شامل ہو، بلکہ اس کے برعکس پراگندہ  اور بے سود حالت سے  ریاکاری کا شائبہ قوی ہوجاتا ہے، بالکل ایسے ہی  حجاج کی واپسی پر آرائش و زیبائش   میں بھی ریاکاری شامل ہوسکتی ہے، چنانچہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  ریاکاری کی بنیاد اصل میں کرنے والے کی نیت اور اسکے دلی رویّہ پر ہے۔

اس لئے ظاہر یہی ہے کہ حجاج کے واپس آنے پر کی جانے والی آرائش عادات میں شام ہے، اور عادات کیلئے اصول یہی ہے کہ عادات جائز ہوتی ہیں، اور ان آرائش کو حرام قرار دینے والوں کے پاس کوئی ایسی قوی دلیل نہیں ہے جس سے اس زیبائش کو حرام قرار دیا جا سکے۔

دوم:

حجاج کے واپس آنے پر  تقریب منعقد کرنا، اور انکے لئے کھانا بنانا، اس بارے میں بھی یہی لگتا ہے کہ یہ جائز ہے،  بلکہ اگر حج  سے واپس آنیوالا شخص  خود ہی لوگوں کیلئے کھانا تیار کروائے، اور لوگوں کی دعوت بھی دے تو یہ جائز ہے، اگر یہ جائز ہے  تو حاجی کیلئے خصوصی کھانا تیار کرنا جائز کیوں نہیں ہوگا؟!

جبکہ سنت نبوی  میں  صحابہ کرام کا مسافروں کے سفر حج، عمرہ، تجارت، یا کسی اور چیز کے سفر سے واپس آنے کی خوشی میں  خوشی منانے کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم   فتح مکہ کے موقع پر مکہ تشریف لائے تو  عبد المطلب کے خاندان میں سے کچھ نو عمر لڑکوں نے آپکا استقبال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک کو اپنے آگے اور ایک کو اپنے پیچھے سوار کر لیا۔
اس حدیث کو بخاری : (1704) نے کتاب العمرہ میں باب: "آنے والے حجاج کا استقبال  کرنا، اور تین افراد کا سواری پر بیٹھنا" کے تحت ذکر کیا ہے۔

اور ابن زبیر نے جعفر رضی اللہ عنہم کے بیٹے سے کہا:"کیا تمہیں یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو میں ، تم ، اورابن عباس اکٹھے ملے تھے؟ ابن زبیر نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں بیٹھا لیا تھا، اور تمہیں چھوڑ دیا تھا" بخاری: (2916)

اور عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب بھی سفر سے مدینہ واپس آتے تو پہلے ہم آگے ہوتے، [ایک بار] میں ، حسن، اور حسین  رضی اللہ عنہما اکٹھے آپکو ملے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم میں سے ایک کو اپنے آگے بیٹھا لیا، اور دوسرے کو اپنے پیچھے بیٹھا لیا، اور پھر ہم مدینہ میں داخل ہوئے۔ مسلم: (2428)

نووی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"نقعیہ" بنانا مستحب ہے، [نقیعہ ] اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو مسافر کے آنے پر تیار کیا جائے، اور اسکا اطلاق مسافر یا کسی اور کی طرف سے بنائے گئے  کھانے  سب پر ہوتا ہے، ۔۔۔ اور اسکی دلیل یہ ہے کہ کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ تشریف لائے ، تو اپ نے اونٹ یا گائے ذبح کی تھی" بخاری"
" المجموع " ( 4 / 400 )

اور شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا:

سائل: "مکہ سے حجاج کی واپسی کے بارے میں ایک رسم  ہے جو کہ دیہاتوں میں بہت زیادہ پھیل چکی ہے"
شیخ: "کیا اس سال پھیلی ہے؟"
سائل: "تقریبا ہر سال  ہوتی ہے، اس کیلئے کھانا تیار کیا جاتا ہے، جسے وہ "حجاج کیلئے ذبیحہ" یا  "حجاج کی خوشی" یا "حجاج کی سلامی" جیسے مختلف نام دیکر پکارتے ہیں، اور بسا اوقات اس میں استعمال ہونے والا گوشت قربانی کا گوشت بھی ہوتا ہے، اور بسا اوقات خصوصی طور پر جانور ذبح بھی کیا جاتا ہے، اس میں کچھ نہ کچھ فضول خرچی بھی ہوتی ہے، تو اس بارے میں آپکا شرعی نقطہ نظر کیا ہے؟ اور سماجی اعتبار سے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟"
شیخ: "اس میں کوئی حرج نہیں ہے، حجاج کرام کی آمد پر انکی عزت افزائی میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ  یہ انکی خوشی میں شراکت ہے، اور اس سے لوگوں میں حج کرنے کی مزید تڑپ پیدا ہوتی ہے، لیکن فضول خرچی کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، یہ منع ہے؛ کیونکہ فضول خرچی شریعت میں بالکل منع ہے، چاہے مذکورہ محفل میں ہو یا کسی اور جگہ، فرمان الہی ہے: ( وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ) اور فضول خرچی مت کرو، بیشک اللہ تعالی فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ [الأنعام:141 ]، ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ) بیشک فضول خرچ لوگ شیاطین کے بھائی ہیں۔ [الإسراء:27 ] لیکن اگر حاضرین کی تعداد کو مد نظر رکھ کر  کھانا مناسب مقدار میں بنایا جائے، یا احتیاطا کچھ زیادہ بنا لیں، تو شرعی اعتبار سے اس میں کچھ  نہیں ہوگا ، جبکہ سماجی اعتبار سے یہ رسم  صرف دیہاتوں میں ہے، اور شہروں میں نہیں ہے، کیونکہ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ حج سے واپس آتے ہیں ، لیکن اسکے باوجود انکے لئے کھانے تیار نہیں کروائے جاتے، اس لئے ہوسکتا ہے کہ یہ رسم چھوٹے دیہاتوں میں موجود ہو، اور اس میں کوئی حرج والی بات بھی نہیں ہے، دیہات والے عموماً سخی ہوتے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی دوسروں کے حقوق میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا"
" لقاءات الباب المفتوح " ( 154 / سوال نمبر: 12 )

سوم:

حجاج کرام کو مبارک باد دینے کیلئے آنے والے افراد  شرعی طور پر جائز الفاظ استعمال کر سکتے ہیں، مثلا: یہ کہیں کہ:
" تَقَبَّلَ اللَّهُ طَاعَتَكُمْ " یعنی: "اللہ تعالی آپکی عبادات قبول فرمائے"
یا پھر : " تَقَبَّلَ اللَّهُ حَجَّكُمْ " یعنی: "اللہ تعالی آپکا حج قبول فرمائے"
یا یہ کہہ دیں کہ: " حَجَّاً مَبْرُوْراً وَسَعْياً مَشْكُوْراً " یعنی:"اللہ تعالی آپکے حج کو مبرور، اور عبادات کیلئے جد وجہد  کو مقبول بنائے"

کچھ ضعیف احادیث اور آثار میں  حجاج کرام کیلئے واپسی پر الفاظ ملتے ہیں، ہم انہیں سند کے اعتبار سے ثابت شدہ نہیں کہتے ، لیکن ان الفاظ کو بطور دعا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً ان دعاؤں میں یہ الفاظ شامل ہیں کہ:
" قَبِلَ اللَّهُ حَجَّكَ ، وَغَفَرَ ذَنْبَكَ ، وَأَخْلَفَ نَفَقَتَكَ " یعنی: اللہ تعالی آپکا حج قبول فرمائے، آپکے گناہوں کو بخش دے، اور آپکا خرچہ واپس  لوٹا دے۔
 " تَقَبَّلَ اللَّهُ نُسُكَكَ ، وَأَعْظَمَ أَجْرَكَ ، وَأَخْلَفَ نَفَقَتَكَ "  یعنی: اللہ تعالی آپکے مناسک قبول فرمائے، آپکو ڈھیروں اجر سے نوازے، اور آپکا خرچہ واپس  لوٹا دے۔
! اس میں وسعت ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب