الحمد للہ.
اگر تو يہ عيب جماع كى قدرت و استطاعت پر اثرانداز ہوتا ہے يا پھر اولاد پيدا كرنے ميں مانع اور اثرانداز ہو تو پھر ہونے والى بيوى كو عقد نكاح سے قبل اس كى خبر دينا ضرورى ہوى ہے؛ كيونكہ نكاح كے مقاصد ميں استمتاع اور لطف اندوزى اور حصول اولاد شامل ہے، اور اگر يہ عيب بيوى كے مقصد كو ہى فوت كر دے اور بيوى سے عيب چھپا كر ركھے تو يہ بيوى سے دھوكہ اور فراڈ ہوگا.
سوال نمبر ( 43496 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ ہر وہ عيب جو خاوند اور بيوى ميں نفرت كا باعث بنتا ہو، يا پھر اس سے نكاح كا مقصد فوت ہوتا ہو، تو اس عيب سے دوسرے فريق كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہوگا، اور ان عيوب ميں خاوند يا بيوى كا خصى اور بانجھ ہونا بھى شامل ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابو حفص كا كہا ہے:
خصى ہونا ايسا عيب ہے جس سے رشتہ رد كيا جا سكتا ہے، امام شافعى رحمہ اللہ كا ايك قول يہى ہے؛ كيونكہ اس ميں نقص اور عار پائى جاتى ہے، اور يہ وطئى اور جماع ميں مانع ہے، يا پھر اس ميں كمزورى پيدا كرتا ہے.
ابو عبيد رحمہ اللہ سے سنداً سليمان بن يسار سے بيان كيا گيا ہے كہ ابن سندر نے ايك عورت سے شادى كى اور ابن سند خصى تھا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ابن سندر كو فرمايا:
كيا تم نے اپنى بيوى كو اس كے متعلق بتايا تھا ؟
تو اس نے عرض كيا: نہيں .
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: بيوى كو بتاؤ اور پھر اس كو اختيار دو " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 143 ).
اس بنا پر ہم يہ كہتے ہيں: آپ كے دوست كو چاہيے كہ وہ اپنا مرض كسى ماہر ڈاكٹر سے چيك كرائے، اگر تو يہ ثابت ہو جائے كہ يہ عيب اولاد پيدا كرنے يا وطئ و جماع پر اثرانداز ہو گا، تو اسے اپنے ہونے والى بيوى كو اس عيب كے متعلق بتانا ضرورى ہے.
اگر تو وہ اسے اس عيب كى حالت ميں ہى قبول كر لے تو اس كے ساتھ نكاح كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وہ اس كے علم ميں نہيں لاتا اور اسے چھپا كر ركھتا ہے تو وہ اسے دھوكہ دے رہا ہے، اور اگر يہ واضح ہو گيا كہ اولاد نہيں ہو سكتى يا پھر وہ وطئ سے عاجز ہے تو بيوى كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.
اور اگر ثابت ہو گيا كہ يہ عيب نہ تو اولاد پيدا كرنے پر اور نہ ہى جماع وطئ پر اثرانداز ہو گا تو يہ عيب شمار نہيں ہو گا اور نہ ہى اس كا بيوى كو بتانا ضرورى ہے.
واللہ اعلم .