جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بيوى كو كہا اگر فجر ہونے تك بچے كو نہ لائى تو تجھے طلاق

100150

تاریخ اشاعت : 14-07-2010

مشاہدات : 3696

سوال

ميرے سسر نے مجھے بيوى اور ميرے بچے كو ملنے سے روك ديا، چنانچہ ميں نے بيوى كو رات كے وقت ٹيلى فون كيا كہ اگر فجر سے پہلے پہلے تم ميرے بچے كو نہ لائى تو تجھے طلاق.
دوسرى حالت: ميرے سسر نے مجھے اپنى بيوى سے روك ديا اور جب ميں اسے لينے گيا تو بيوى نے جانے سے انكار كر ديا اور جھگڑنے لگى اور ہمارى تلخ كلامى ہو گئى ميں شديد غصہ كى حالت ميں تھا تو ميں نے اسے كہا " فلان عورت ( اس سے مراد اس كى بيٹى تھى ) كو طلاق يہ كہہ كر ميں چلا گيا.
تيسرى حالت:
ميرے سسر نے بيوى كو ملنے سے روك ديا ميں نے صلح كے ليے سسر كے پاس كچھ آدمى بھيجے ليكن اس نے پھر بھى انكار كر ديا اور مجھے ميرى اولاد سے بھى ملنے سے منع كر ديا شديد غصہ كى حالت ميں تلخ كلامى ہوئى اور بغير محسوس كيے ميں نے بيوى كو غصہ كى حالت ميں طلاق دے دى.
برائے مہربانى مجھے اس كے بارہ ميں فتوى ديں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، ميں بہت پريشان ہوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

طلاق كے الفاظ استعمال كرنے ميں تساہل سے اجتناب كرنا چاہيے اور ہر چھوٹى موٹى بات پر طلاق طلاق كا راگ نہيں الاپنا چاہيے، كيونكہ جھگڑے اور تنازع كے وقت طلاق دينا كوئى طاقت و شجاعت نہيں كہلاتا، بلكہ شجاعت و بہادرى تو يہ ہے كہ غصہ ميں اپنے آپ پر كنٹرول كيا جائے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے.

اس جلد بازى نے كتنے ہى خاندان تباہ كر ديے اور كتنے گھروں كا شيرازہ بكھير كر ركھ ديا اور كتنے ہى گھر خراب كر كے ركھ ديے كتنے بچوں كو ضائع كر ديا.

انسان كو چاہيے كہ وہ ان مشكلات كو بڑى عقلمندى كے ساتھ نرم رويہ والى فضا ميں حل كرے، اور اگر اس كا مدمقابل ان صفات كے متصف نہ ہو تو اسے اس كے ساتھ بات چيت اور جھگڑا كرنے سے احتراز كرنا چاہيے، بلكہ اس كے علاج كے ليے كوئى اور وسيلہ اختيار كرے، مثلا كسى رشتہ دار اور دوست كو واسطہ بنائے، اور جھگڑا ختم كرنے كے ليے بہتر اور مناسب وقت اور جگہ كا انتخاب كرے.

دوم:

آپ كا اپنى بيوى كو ٹيلى فون كے ذريعہ " اگر فجر سے قبل بچے كو نہ لائى تو تجھے طلاق " كے الفاظ بولنا يہ شرط پر معلق طلاق كہلاتى ہے، چنانچہ اگر بيوى فجر سے قبل بچہ لے آئى تو طلاق واقع نہيں ہوگى، ليكن اگر فجر ہونے تك وہ بچہ نہ لائى تو جمہور كے قول كے مطابق اسے طلاق رجعى ہو جائيگى.

ليكن بعض اہل علم كے ہاں متكلم كى نيت ديكھى جائيگى كہ وہ اس كلام سے كيا مراد لے رہا ہے، اگر تو بچہ نہ لانے كى صورت ميں اس كى مراد طلاق واقع كرنا ہے، تو طلاق واقع ہو جائيگى.

ليكن اگر وہ اس سے بيوى كو دھمكانا چاہتا ہو يا پھر بچے كو لانے پر ابھارنا چاہے تو اور طلاق كا ارادہ نہ ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى، ليكن قسم ٹوٹنے كى صورت ميں اسے قسم كا كفارہ دينا ہو گا اور طلاق واقع نہيں ہوگى.

يہ دوسرا قول شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اختيار كيا ہے اور مستقل فتاوى كميٹى كے علماء كرام اور شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار ديا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 82400 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

ليكن آپ نے بيان نہيں كيا كہ پھر كيا ہوا، بالفرض اگر بيوى بچہ لے كر نہيں آئى تو ـ جمہور كے مسلك كے مطابق ـ اسے ايك طلاق ہو گئى ہے، اور آپ كو عدت كے اندر اندر رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر يہ طلاق تيسرى نہ ہو، چاہے بيوى رجوع پر راضى ہو يا نہ راضى ہو، ليكن عدت ختم ہونے كے بعد دوبارہ نيا نكاح نئے مہر كے ساتھ ہوگا.

شديد غصہ كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى اہل علم كى كلام ميں راجح يہى ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22034 ) اور ( 45174 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس بنا پر اگر آپ نے شديد غصہ كى حالت ميں طلاق كے الفاظ بولے ہيں، يعنى وہ اس طرح كہ اگر غصہ نہ ہوتا تو آپ طلاق نہ ديتے، تو اس صورت ميں طلاق واقع نہيں ہوئى.

طلاق كے مسائل ميں شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے تا كہ الفاظ كے بارہ ميں جانا جا سكے، اور اس كى تفصيل معلوم ہوں اور اگر ضرورت پڑے تو دونوں طرف سے بات سنى جا سكے.

اللہ سبحانہ و تعالى سب كو اپنى پسند اور رضامندى والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب