اتوار 30 جمادی اولی 1446 - 1 دسمبر 2024
اردو

دوبیویوں سے شادی شدہ شخص کاروبار نہيں کرتا توکیا ان میں سے ایک کوطلاق دے دے

10035

تاریخ اشاعت : 23-09-2003

مشاہدات : 7462

سوال

میرے خاوند نے دو شادیاں کی ہیں اوروہ کوئي بھی کام نہيں کرتا توکیا وہ پہلی کوطلاق دے یا دوسری کو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


انسان کا اپنا اوراس کے بیوی بچوں کا رزق لکھا جا چکا اورمقدر ہوچکا ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورزمین پر چلنے والے جتنے بھی جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالی کے ذمہ ہيں ، وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کوجانتا ہے اوران کے سونپے جانے کی جگہ کوبھی ، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے ھود ( 6 ) ۔

اوربیوی کوطلاق دینے سے رزق میں کوئي زیادتی نہیں ہوگی اورنہ ہی اس میں فراخی ہوسکتی ہے ، بلکہ شادی کرنا اورخاندان کا بسنا اوراس میں اسقرار و ٹھراؤ با‏عث برکت اوروہ برکت اورروزی کولاتا ہے ۔

اسی لیے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :

تم میں سے جو مرد وعورت بے نکاح ہیں ان کا نکاح کردو ، اور اپنے نیک بخت غلام اورلونڈیوں کابھی ، اگر وہ مفلس اورفقیر بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اوراللہ تعالی بڑی وسعت والا اورجاننے والا ہے النور ( 32 ) ۔

تواس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ نکاح کرنا روزی لاتا ہے اوراس میں اضافہ کا باعث وسبب ہے ۔

اوراللہ تعالی نے مردوں کویہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اہل عیل پر خرچہ کریں ، اورجس شخص کورزق کی کمی کا سامنا ہو اللہ تعالی نے اسے یہ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس جوکچھ بھی دیا ہے وہ اس میں حسب استطاعت اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے ، اسے یہ حکم نہیں دیا کہ اگر اس کی روزی تنگ ہے توبیوی کو طلاق دے دے ۔

بلکہ اللہ تعالی نے تویہ بتایا ہے کہ وہ عنقریب تنگي کے بعد وسعت اورمشکل کے بعد آسانی پیدا کرے گا ۔

اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

کشادگی والے کواپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اورجس پر اس کے رزق میں تنگی کی گئي ہو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی نے اسے جوکچھ دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرے ، اللہ تعالی کسی بھی شخص کو اتنی ہی تکلیف دیتا ہے جتنی اسے طاقت دے رکھی ہے ، اللہ تعالی تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی پیدا کردے گا الطلاق ( 7 ) ۔

ہم تویہی نصیحت کرتے ہیں کہ خاوند اپنی کسی بھی بیوی کوطلاق نہ دے ، اوراللہ تعالی پر توکل اوربھروسہ کرتے ہوئے کام کی تلاش اورطلب رزق میں لگا رہے اور اسے میں اسے سستی اورکاہلی کا مظاہرہ نہيں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالی پر حقیقی توکل کرتے ہوئے کام کی تلاش کرے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اگر تم اللہ تعالی حقیقی توکل کرو جس طرح کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے تواللہ تعالی تمہیں بھی ویسے ہی رزق سے نوازے جس طرح کہ وہ پرندوں کو عطا کرتا ہے وہ اپنے گھونسلوں سے صبح کے وقت خالی پیٹ اوربھوکے نکلتے ہیں اورجب شام کے واپس آتے ہیں توان کے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں ) مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، سنن ترمذی ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں کہا ہے :

توکل سے مراد یہ ہے کہ : جس چيز پر یہ آیت دلالت کرتی ہے اس کا اعتقاد رکھا جائے :

( اورزمین پر چلنے پھرنے والے جتنے بھی جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالی کے ذمہ ہيں ) ھود ( 6 ) ۔

اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان اسباب کوچھوڑ کر بیٹھ جائے اورجوکچھ مخلوق سے حاصل ہوتا ہے اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دے ، کیونکہ ایسا کرنے سے ہوسکتا ہے توکل کے مخالف چيز حاصل ہو ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی سے ایسے شخص کے بارہ میں سوال کیا گيا جواپنے گھریا پھر مسجد میں بیٹھ جائے اوریہ کہنا شروع کردے کہ میں کوئي کام نہیں کرونگا حتی کہ مجھے میرا رزق مل جائے ، توامام احمد رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

یہ آدمی علم سے جہالت میں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم توفرماتے ہیں :

( بلاشبہ اللہ تعالی نے میرا رزق تومیرے نیزے کے نیچے رکھا ہے ) ۔

اورایک دوسری حدیث میں کچھ اس طرح فرمایا :

( اگر تم اللہ تعالی حقیقی توکل کرو جس طرح کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے تواللہ تعالی تمہیں بھی ویسے ہی رزق سے نوازے جس طرح کہ وہ پرندوں کو عطا کرتا ہے وہ اپنے گھونسلوں سے صبح کے وقت خالی پیٹ اوربھوکے نکلتے ہیں اورجب شام کے واپس آتے ہیں توان کے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں )

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ ذکرفرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے رزق کی تلاش میں جاتے ہیں ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اورصحابہ کرام بھی تجارت کیا کرتے اوراپنے کھجوروں کے باغات میں کام کاج کیا کرتے تھے ، اوران لوگوں میں ہمارے لیے قدوہ اورنمونہ ہے ۔

اوربیویوں پرہی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند کی مدد اورتعاون کریں ، اورخاوند کی حالت اوراستطاعت کا خیال رکھتے ہوئے اس اس کی استطاعت سے زیادہ تنگ نہ کریں ، اوراگرتم دونوں کوئي ایسا کام کرسکتی ہوجو نفقہ میں خاوند کے لیے مدد گار ثابت ہوسکے توآپ کوایسا کرنا چاہیے ، لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ اس کام میں شرعی قوانین اورضوابط اورگھر اوراولاد کی ضرورت کومدنظر رکھیں توتمہیں بھی اجرثواب حاصل ہوگا ۔

حدیث میں وارد ہے کہ :

کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورکہنے لگی : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ہنر مند عورت ہوں مجھے کچھ ہنر آتا ہے ، میرے اورمیری اولاد اورخاوند کے لیے اس کے علاوہ کوئي روزگاراورخرچے کا انتظام نہیں ، اورمجھے انہوں نے صدقہ کرنے سے بھی روک رکھا ہے جس کی بنا پر میں اب کچھ بھی صدقہ نہیں کرسکتی توکیا میرا ان پر خرچہ کرنے سے مجھے کوئي اجروثواب حاصل ہوگا ؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا : ان پر خرچہ کرتی رہو کیونکہ ان پر تم جو بھی خرچ کرو گی اس کا تمہيں اجروثواب ملے گا ۔

دیکھیں مسند احمد حدیث نمبر ( 15504 ) ۔

اورصحیح بخاری کی ایک راویت میں یہ الفاظ ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :

( اسے دوہرا اجر حاصل ہوگا ، ایک تو رشتہ داری کا اجرو ثواب اوردوسرا صدقہ کرنے کا ثواب ) ۔

ہم اللہ تعالی سے دعاگو ہيں کہ وہ ہمیں عفت وغنا عطا فرمائے ، واللہ تعالی اعلم ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ، آمین یا رب العالمین ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد