الحمد للہ.
اول:
عورت كے ليے شادى كا مطالبہ كرنا اور نيك و صالح خاوند تلاش كرنے ميں كوئى حرج نہيں؛ خاص كر اس دور ميں جبكہ فتنہ و فساد كى بھرمار ہو چكى ہے، بلكہ يہ تو اس كے كمال عقل اور حسن تصرف كى دليل ہے.
امام بخارى رحمہ اللہ نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" ايك عورت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور آ كر اپنے آپ كو پيش كرتے ہوئے كہنے لگى: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ كو ميرى ضرورت ہے ؟
انس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى كہنے لگى: يہ كتنى بےشرم اور بے حياء ہے ہائے كتنا غلط كام ہے كتنا غلط ہے.
وہ كہنے لگے: وہ تجھ سے بہتر تھى، اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں رغبت ركھى تو اپنے آپ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر پيش كر ديا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5120 ).
امام بخارى رحمہ اللہ نے اس پر باب يہ باندھا ہے كہ:
" عورت كا اپنے آپ كو نيك و صالح شخص پر پيش كرنا "
عينى رحمہ اللہ عمدۃ القارى ميں رقمطراز ہيں:
انس رضى اللہ تعالى عنہ كا اپنى بيٹى كو يہ كہنا كہ:
" وہ تجھ سے بہتر تھى "
اس بات كى دليل ہے كہ عورت اپنے آپ كو كسى نيك و صالح شخص پر پيش كر سكتى ہے، اس شخص كے علم و فضل كى بنا پر عورت كى اس ميں رغبت كى بنا پر، يا پھر علم و شرف يا كسى دينى خصلت كى وجہ سے عورت اپنے آپ كو پيش كر سكتى ہے، اور اس ميں كوئى عار نہيں، بلكہ يہ تو اس عورت كے فضل پر دلالت كرتا ہے.
اور انس رضى اللہ تعالى عنہا كى بيٹى نے ظاہرى صورت كو ديكھا تھا، اسے اس معنى كا ادراك اس وقت تك نہيں ہوا جب تك انس رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے " وہ تجھ سے بہتر تھى " كے الفاظ نہيں بولے.
ليكن جو عورت اپنے آپ كى كسى شخص پر دنياوى غرض كى وجہ سے پيش كرتى ہے تو يہ سب سے قبيح اور فحش معاملہ ہے " انتہى
ديكھيں: عمدۃ القارى شرح صحيح البخارى ( 20 / 113 ).
دوم:
شادى كے معاملہ ميں كسى نيك و صالح شخص سے معاونت حاصل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا يہ كہ كوئى عورت اپنا معاملہ كسى قابل بھروسہ اور ثقہ نيك و صالح شخص پر پيش كرے كہ وہ اس كى شادى كرانے ميں مدد كرے، اور جب اس عورت كے ليے آنے والے رشتوں ميں كوئى بھى نيك و صالح شخص نہ ہو تو پھر اس كى معاونت كى ضرورت پيش آ سكتى ہے.
اس وقت كچھ قواعد و ضوابط كى شرط ہے كہ ان پر عمل كيا جائے:
ـ وہ شخص جو واسطہ بن رہا ہے وہ عورت كى تفصيلى صفات مطلع نہ ہو بلكہ اس كے عمومى امور كو ہى جاننا كافى ہے كہ عورت كا حسب و نسب كيا ہے، اور اس كى تعليم اور كيا كام كرتى ہے، رہا يہ كہ وہ خوبصورت ہے يا نہيں يا اس طرح كے دوسرے امور تو بہتر يہى ہے كہ وہ اسے اپنى بيوى يا بہن وغيرہ كے ذريعہ معلوم كرے تا كہ حتى الامكان فتنہ سے دور رہا جائے.
ـ ان صفات كو معلوم كرنے كے بعد جو كوئى بھى اس عورت كا رشتہ حاصل كرنا چاہے تو اسے عورت كے گھر والوں سے رابطہ كرنا چاہيے، ليكن وہ خود عورت سے رابطہ نہ كرے، اصل يہى ہے اور پھر اس عورت كے ليے بھى احتياط اسى ميں ہے كہ وہ براہ راست اس شخص سے رابطہ مت كرے جو اس كا رشتہ حاصل كرنا چاہتا ہے، اور درميان ميں واسطہ بننے والے كو چاہيے كہ وہ ايسا شخص اختيار كرے جسے آپ كا ولى قبول بھى كر لے، اور وہ اس سلسلہ ميں حسب و نسب اور معاشرتى برابرى كا بھى خيال ركھے؛ تا كہ رشتہ كى طلب بار بار نہ ہو اور نہ ہى بار بار رشتہ سے انكار كيا جائے.
ـ جو شخص كسى عورت سے منگنى كا پختہ عزم ركھتا ہو اس كے ليے عورت كے علم اور لاعلمى دونوں صورتوں ميں ديكھنا جائز ہے، تا كہ وہ اس كا رشتہ حاصل كرنے كا عزم كر سكے.
آپ كو چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى سے نيك و صالح خاوند كے حصول كى دعا مانگتى رہيں، اور اپنے كچھ كرنے سے قبل استخارہ ضرور كريں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور اس عورت كو توفيق سے نوازے اور سيدھى راہ دكھائے.
واللہ اعلم .