الحمد للہ.
اول:
پہلى بات تو يہ ہے كہ مسؤلہ خاوند كے ليے ڈاكٹر حضرات سے مشورہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں تا كہ وہ اس كے ليے كوئى دوائى تجويز كر سكيں جو عضو تناسل كو بڑا كرے ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اگر ايسا كرنے ميں كوئى ضرر اور نقصان نہ ہو.
اسى طرح عضو تناسل پر كوئى ايسى چيز چڑھانے ميں بھى كوئى حرج نہيں مثلا كنڈوم وغيرہ جبكہ ايسا كرنے ميں بيوى كے ليے زيادہ لطف اندوزى كا باعث ہوتا ہو، كيونكہ اس ميں اصل اباحت ہے، اور خاوند سے مطلوب يہى ہے كہ وہ بيوى سے حسن معاشرت كرے، اور اس حسن معاشرت ميں اپنى بيوى كى عفت و عصمت كو محفوظ كرنا اور اس كى خواہش و رغبت پورى كرنا اور اس ميں حائل مانع كو دور كرنا بھى شامل ہے.
دوم:
آپ كا يہ كہنا كہ: شرع ميں كوئى شرم نہيں، ايسا نہيں كہنا چاہيے بلكہ آپ كے ليے يہ كہنا بہتر اور افضل تھا كہ: يقينا اللہ سبحانہ و تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اپنے بعض جوابات ميں كہتے ہيں:
" آپ كا يہ كہنا كہ: " شرع ميں كوئى شرم نہيں " اس سے يہ كہنا بہتر تھا كہ: يقينا اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا، جيسا كہ ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا تھا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم! يقينا اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا، كيا جب عورت كو احتلام آئے تو اس پر بھى غسل ہے ؟ "
ليكن يہ كہ: " شرع ميں كوئى شرم نہيں " اس كلمہ سے فاسد معنى بھى ليا جا سكتا ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تو فرمان ہے:
" شرم و حياء ايمان كا حصہ ہے "
اس ليے دين ميں شرم و حياء ايمان كا حصہ ہے، ليكن قائل يعنى " شرع ميں كوئى شرم نہيں " كہنے والے كى غرض اور اس سے مقصد يہ ہے كہ: دين كے مسئلہ ميں كوئى شرم و حياء نہيں يعنى: آپ كسى ايسے مسئلہ كے بارہ ميں دريافت كريں جس سے شرمايا اور حيا كى جاتى ہے.
اس ليے اگر سائل كا مقصد يہ ہو تو اس كلمہ كى بجائے " يقينا اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا " كہنا زيادہ بہتر اور افضل ہے "
اللقاء الشھرى ( 37 / 25 ).
واللہ اعلم .