بدھ 19 جمادی اولی 1446 - 20 نومبر 2024
اردو

کفار کے علاقے میں اگر کوئی خزانہ وغیرہ مل جائے تو کیا کرے؟

101584

تاریخ اشاعت : 08-08-2015

مشاہدات : 4410

سوال

میں ایک غیر اسلامی ملک میں رہتا ہوں، اور مجھے کھیل کے میدان میں دبا ہوا کچھ مال ملا، ظاہر ہوتا تھا کہ اسے یہاں پر کئی برس پہلے دبایا گیا ہے، تو مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مدفون مال پر اگر کوئی ایسی علامت یا شواہد ہوں جس سے یہ پتا چلےکہ  یہ کفار کا مال ہے، مثلاً کفار کے مخصوص سکے اس میں پائے جائیں تو اسے فقہی اصطلاح میں "رکاز" کہا جاتا ہے، اور فقہائے کرام کا ایسے شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو کفار کے علاقے میں پر امن طریقے سے داخل ہو [یعنی جنگ کیلئے داخل نہ ہو]اور وہاں پر اسے خزانہ ملے:

1- کچھ کا کہنا ہے کہ یہ خزانہ اسی کی ملکیت ہے، اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے، یہ موقف احناف کا ہے۔

2- کچھ کا کہنا ہے کہ یہ خزانہ اسی کی ملکیت ہے، اور اسے پانچواں حصہ [بیت المال میں جمع کروانا ہوگا]، یہ موقف حنبلی فقہاء اور ابن حزم کا ہے۔

3- کچھ کا کہنا ہے کہ یہ خزانہ اسی کی ملکیت نہیں ہے، اور اسے یہ خزانہ علاقے والوں کو دے دینا چاہیے، یہ موقف شافعی فقہاء کا ہے۔

حنفی فقہی کتب میں سے "الہدایہ" میں ہے کہ:
"جو شخص دار الحرب میں پر امن طریقے سے داخل ہو ، اور وہاں کسی کے گھر میں خزانہ ملے تو اسے واپس کرے، تا کہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہو؛ کیونکہ  گھر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ مالک  مکان کی ملکیت میں ہوتا ہے، تاہم اگر اسے خزانہ صحرا میں ملے تو یہ اسی کا ہوگا؛ کیونکہ  یہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہے، اور نہ ہی اسے معاہدے کی خلاف ورزی کہا جائے گا، اور اس پر اس خزانے سے متعلق کچھ بھی واجب نہیں ہے" انتہی

ابن ہمام اس عبارت کی شرح  کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"صحرا سے مراد ایسی جگہ ہے جس کا کوئی مالک نہ ہو" انتہی
"فتح القدير" (2/238)

مزید کیلئے دیکھیں: المبسوط (2/215) ، تبیین الحقائق (1/290)

نووی رحمہ اللہ  "المجموع" (6/51) میں رافعی  سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
"اگر دار الحرب میں  امان کیساتھ داخل ہو تو اس کیلئے کوئی بھی خزانہ  کسی بھی انداز سے اپنے قبضہ میں کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح  کسی بھی انداز سے انکی املاک میں خیانت نہیں کر سکتا، اگر کی تو مال  واپس کرنا ہوگا" انتہی
مزید کیلئے دیکھیں: روضة الطالبين (2/289) ، شرح البهجة الوردية (2/144)

ابن حزم "المحلى" (5/385) میں کہتے ہیں کہ :
"اگر کسی شخص کو کسی غیر ذمی کافر کا دفن شدہ  خزانہ ملے -چاہے زمانہ جاہلیت  میں دفن کیا ہو یا بعد میں- تو اس خزانے کے پانچ حصوں  میں سے چار حصے اس کیلئے حلال ہیں، اور پانچواں حصہ وہاں تقسیم کیا جائے گا جہاں مالِ غنیمت تقسیم ہوتا ہے، چاہے یہ خزانہ عرب سر زمین پر ملے یا مسلمانوں کے بزور شمشیر فتح شدہ علاقوں میں یا ایسے علاقے میں ملے جہاں کے لوگوں کیساتھ صلح کا معاہدہ ہے، یا اپنے ہی گھر میں ملے یا کسی مسلمان کے گھر میں ، یا ذمی  کے گھر میں یا کسی اور جگہ سب کا حکم  برابر ہے، جیسے کہ ہم نے پہلے بیان کر دیا ہے" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
مزید کیلئے دیکھیں: "شرح منتہى الإرادات" (2/147)

کامل علم تو اللہ کے پاس ہی ہے، تاہم واضح  یہی آخری موقف معلوم ہوتا ہے ، چنانچہ جو کوئی شخص  مسلم  یا غیر مسلم علاقے میں  خزانہ پائے تو یہ اسی کا ہے، لیکن اس میں سے پانچواں حصہ نکالنا ہوگا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے: (رکاز میں پانچواں حصہ ہے) بخاری: (1499) مسلم: (1701)

اور یہ خمس [پانچواں حصہ] ان جگہوں میں صرف کیا جائے گا جہاں مال فیء کیا جاتا ہے، یعنی مسلمانوں کے مفاد عامہ  کیلئے  خرچ کیا جائے گا، اسی طرح مساکین، یتیم، مسافر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز و اقارب یعنی بنو ہاشم  کو دیا جائے گا۔

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق آپ کو اس مال میں سے پانچواں حصہ نکالنا ہوگا، اور باقیماندہ آپ کی ملکیت میں چلا جائے گا۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب