الحمد للہ.
اذان اور اقامت كے باب ميں دو مسئلے بہت اہم ہيں ان كا بيان كرنا اور ان ميں فرق كرنا بہت ضرورى ہے:
پہلا مسئلہ:
كيا اقامت كہنے والے شخص كے ليے اقامت سے قبل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا مستحب ہے ؟
بعض متاخرين فقھاء شافعيہ كا قول ہے، اور اسے زين الدين بن عبدالعزيز المليبارى متوفى ( 978هـ ) نے اپنى كتاب " فتح المعين " ميں اسے ذكر كيا اور شرح الوسيط ميں امام نووى كى طرف منسوب كيا ہے.
اور اعانۃ الطالبين ميں سيد بكرى دمياطى المتوفى ( 1302 هـ ) كا قول ہے:
" اذان اور اقامت سے قبل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا مسنون ہے " انتہى
ديكھيں: اعانۃ الطالبين ( 1 / 280 ).
ليكن فقھاء شافعيہ ميں سے شيخ على الشبراملسى متوفى ( 1078 هـ ) نے نھايۃ المحتاج كے حاشيہ ميں بعض فقھاء شافعيہ سے نقل كرتے ہوئے اس قول كو امام نووى كى طرف نسبت كى نفى كى ہے، ان كا كہنا ہے كہ سرح الوسيط ميں لكھنے ميں غلطى ہوئى ہے بلكہ صحيح يہ ہے كہ اقامت كے بعد كے الفاظ ہيں نہ كہ اقامت سے قبل " انتہى
نھايۃ المحتاج ( 1 / 432 ).
اس قول كا استدلال ممكن ہے معجم الاوسط للطبرانى كى درج ذيل حديث كيا گيا ہو:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب بلال رضى اللہ تعالى عنہ نماز كے ليے اقامت كہنا چاہتے تو السلام عليك ايھا النبى و رحمۃ اللہ و بركاتہ، الصلاۃ رحمك اللہ كے الفاظ كہتے "
ليكن اس كى سند ميں ايك راوى جس كا نام عبد اللہ بن محمد بن المغيرۃ بہت ہى زيادہ ضعيف راوى ہے جو منكرات اور موضوعات روايات كرتا ہے، لسان الميزان ميں اس كے حالات كے متعلق لكھا ہے:
ابو حاتم كہتے ہيں ليس بقوى يہ قوى نہيں، اور ابن يونس نے اسے منكر الحديث كہا ہے، اور ابن عدى كہتے ہيں اس كى عام مرويات كى متابعت نہيں كى جائيگى، امام نسائى كہتے ہيں اس نے ثورى اور مالك بن مغول سے ايسى احاديث روايت كى ہيں وہ دونوں اس لائق تھے كہ وہ يہ احاديث بيان نہ كريں، اور العقيلى نے اسے ضعفاء ميں ذكر كيا اور كہا ہے يہ ايسى احاديث بيان كرتا ہے جس كى اصل نہيں ہيں " انتہى
ديكھيں: لسان الميزان ( 3 / 332 ).
اس ليے شيخ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث پر كذبب اور موضوع ہونے كا حكم لگايا ہے ديكھيں: السلسۃ الاحاديث الضعيفۃ والموضوعۃ ( 891 ).
پھر علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث اس بدعت كى اصل اصيل ہے جو ہم نے شمالى علاقوں حلب اور ادلب وغيرہ ميں ديكھى وہ بدعت يہ ہے كہ اقامت سے قبل بلند آواز سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھى جاتى ہے اور يہ بھى دوسرى بدعات كى طرح ہى ہے جو اذان كے بعد بلند آواز سے كى جاتى ہيں اور محقق علماء كرام اس كے بدعت ہونے كو بيان بھى كر چكے ہيں.
اگر تسليم كر ليا جائے كہ يہ حديث صحيح ہے تو حديث سے ظاہر يہ ہوتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے حجرہ شريف ميں ہوتے اور بلال رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بتانے كے ليے جاتے كہ وہ اقامت كہنا چاہتے ہيں تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز كے ليے تشريف لائيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اقامت كى آواز نہيں سنتے تھے تو بلال رضى اللہ تعالى عنہ آپ كو خبر ديتے تھے " انتہى
تو صحيح يہ ہے كہ اقامت سے قبل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا مستحب نہيں جيسا كہ لوگوں كى عادت بن چكى ہے، كيونكہ نہ تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى صحابہ كرام سے اس كا ثبوت ملتا ہے، اور سنت كى بجائے يہ بدعت كے زيادہ قريب ہے.
اور محقق شافعيہ نے بھى اس كا انكار كيا ہے:
ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
كيا امام احمد رحمہ اللہ نے اقامت كے شروع ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا مستحب بيان كيا ہے ؟
ابن حجر كا جواب تھا:
" ميں نے تو كسى كو بھى نہيں ديكھا جو اقامت كى ابتدا ميں درود كو مندوب قرار ديتا ہو، بلكہ ہمارے آئمہ نے جو بيان كيا ہے وہ يہ ہے كہ درود و سلام اذان كى طرح اقامت كے بعد مسنون ہے، اور پھر اس كے بعد اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ مكمل دعا پڑھنا .... ( پھر انہوں نے حسن بصرى وغيرہ سے سابقہ آثار ذكر كيے ہيں ) " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 1 / 129 ).
اور ايك مقام پر كہتے ہيں:
" ہم ان احاديث ميں اذان سے قبل اور نہ ہى محمد رسول اللہ كے بعد درود پڑھنے كے متعلق كچھ نہيں پاتے، اور ہمارى رائے كے مطابق ہمارے آئمہ كى كلام ميں بھى اس كا كوئى ذكر نہيں ملتا، تو پھر ان دونوں مذكور جگہوں ميں جس نے بھى اس مخصوص جگہ درود پڑھنے كو سنت سمجھ كر عمل كيا اسے ايسا كرنے سے منع كيا جائيگا؛ كيونكہ يہ بغير كسى دليل كے مشروع كيا جا رہا ہے، اور جو شخص بغير كسى دليل كےكوئى عمل مشروع قرار دے اسے ايسا كرنے سے ڈانٹا اور منع كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 1 / 131 ).
اس مسئلہ كے متعلق مزيد آپ سوال نمبر ( 22646 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوسرا مسئلہ:
كيا اقامت كہنے اور سننے والے شخص كے ليے اقامت كے بعد درود پڑھنا مستحب ہے ؟
جمہور اہل علم عبد اللہ بن عمر بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث سے استدلال كرتے ہوئے اس كے مستحب ہونے كے قائل ہيں:
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" جب تم مؤذن كو اذان ديتے ہوئے سنو تو تم بھى اسى طرح كہو اور پھر مجھ پر درود پڑھو كيونكہ جو شخص بھى مجھ پر درود پڑھتا ہے اللہ تعالى اس كے بدلے اس پر دس رحمتيں نازل فرماتا ہے، پھر تم ميرے ليے اللہ تعالى سے وسيلہ طلب كرو كيونكہ يہ وسيلہ جنت ميں ايسا مقام اور مرتبہ ہے جو اللہ كے بندوں ميں سے صرف ايك بندے كو ملے گا، اور مجھے اميد ہے كہ وہ ميں ہى ہوں، جس نے بھى ميرے ليے وسيلہ طلب كيا اس كے ليے شفاعت حلال ہو گئى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 384 ).
فتح البارى ميں ابن رجب كا قول ہے:
" قولہ: " جب تم مؤذن كو سنو " اس ميں اذان اور اقامت دونوں شامل ہيں؛ كيونكہ يہ دونوں ہى اذان كے ليے نداء اور بلاوا ہيں جو مؤذن كى جانب سے صادر ہوتى ہيں " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 457 ).
ان كا كہنا ہے بعض صحابہ اور تابعين كے صريح قول ميں بھى يہ وارد ہوا ہے:
ابن سنى نے " عمل اليوم و الليلۃ " ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" جب مؤذن اقامت كہتا تو ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ و ھذہ الصلاۃ القائمۃ صلى اللہ على محمد و آتہ سؤلہ يوم القيامۃ كے الفاظ كہتے تھے "
ديكھيں: عمل اليوم و الليلۃ حديث نمبر ( 105 ).
اور مصنف عبد الرزاق ميں ايوب اور جابر جعفى سے مروى ہے وہ دونوں كہتے ہيں:
" جس نے اقامت كے وقت " اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ و الصلاۃ القائمۃ اعط سيدنا محمد الوسيلۃ و ارفع لہ الدرجات كے الفاظ كہے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اس كے ليے شفاعت ثابت ہو گئى "
ديكھيں: مصنف عبد الرزاق (1 / 496 ).
اور الدينورى نے " المجالسۃ و جواھر العلم " ميں يوسف بن اسباط سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:
مجھے يہ بات پہنچى ہے كہ جب اقامت كہى جائے اور مسلمان " اللھم رب ھذہ الدعوۃ المستمعۃ المستجاب لھا صلى على محمد و على آل محمد و زوجنا من الحور العين " كے الفاظ نہ كہے تو حوريں كہتى ہيں: يہ ہمارے بارہ ميں زہد ركھتا ہے " انتہى
ديكھيں: المجالسۃ و جواھر العلم ( 60 ).
اسى ليے ابن قيم رحمہ اللہ نے " جلاء الافھام " ميں فصل باندھتے ہوئےكہا ہے:
چھٹى جگہ جہاں درود پڑھا جائيگا وہ مؤذن كا جواب دينے كے بعد اور اقامت كے وقت ہے، پھر انہوں نے عبد اللہ بن عمرو كى حديث اور بعض سابقہ آثار ذكر كيے ہيں، اور حسن بصرى تك اپنى سند كے ساتھ حسن بن عرفہ كى روايت بھى ذكر كى ہے كہتے ہيں:
" جب مؤذن " قد قامت الصلاۃ " كہے تو وہ جواب ميں اللھم رب ھذہ الدعوۃ الصادقۃ و الصلاۃ القائمۃ، صلى على محمد عبدك و رسولك و ابلغہ درجۃ الوسيلۃ فى الجنۃ " كہے تو وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى شفاعت سے جنت ميں داخل ہو گا "
ديكھيں: جلاء الافھام ( 372 - 373 ).
اور ابن ابى شيبہ نے بھى مصنف ابن ابى شيبہ ميں حكم اور حسن بصرى سے اسى طرح كى روايت نقل كى ہے ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبہ ( 7 / 124 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" سنت يہ ہے كہ اقامت سننے والا بھى اسى طرح كہے جس طرح اقامت كہنے والا كہہ رہا ہے؛ كيونكہ يہ دوسرى ندا اور اذان ہے لہذا اس كا بھى جواب اسى طرح ہو گا جس طرح اذان كا جواب ديا جاتا ہے، اور سننے والا اقامت كہنے والے كے قول: حى على الصلاۃ حى على الفلاح كے جواب ميں لا حول و لا قوۃ الا باللہ كہے گا، اور قد قامت الصلاۃ كى جگہ پر بھى اسى طرح قد قامت الصلاۃ ہى كہےگا، اور اقامھا اللہ و ادامھا كے الفاظ نہيں كہے گا كيونكہ جس حديث ميں يہ الفاظ وارد ہيں وہ ضعيف ہے بلكہ صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
جس طرح مؤذن كہے تم بھى اسى طرح كہو"
اور يہ اذان اور اقامت كے ليے عام ہے؛ كيونكہ دونوں كو اذان كہا جاتا ہے.
پھر اقامت ميں لا الہ اللہ كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے اور يہ دعا پڑھے: اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ و الصلاۃ القائمۃ .... الخ جس طرح اذان كے بعد پڑھى جاتى ہے.
ہمارے علم كے مطابق تو اس كے علاوہ اقامت اور نماز كى تكبير تحريمہ كے مابين كوئى اور دعا كرنا مشروع نہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 89 - 90 ).
اور مجموع فتاوى ابن باز ميں درج ہے:
" اذان يا اقامت كى دعا سے فارغ ہونے كے بعد مجھے تو كچھ ياد نہيں جو كہنا چاہيے، صرف اتنا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كے ليے يہ مشروع كيا ہے كہ وہ مؤذن كى اذان اور اقامت كا جواب ديں، اور اذان اور اقامت كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كے بعد يہ دعا پڑھے:
" اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته " اسے بخارى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 10 / 347 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ مغنى المحتاج ( 1 / 329 ) اور حاشيۃ الجمل ( 1 / 309 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 14 ) اور الثمر المستطاب ( 214 - 215 ) كا مطالعہ كريں.
دوسرا قول: اقامت كہنے والے كا جواب دينا مستحب نہيں بعض احناف كا بالجزم يہى قول ہے، اور بعض مالكيہ بھى يہى كہتے ہيں.
ديكھيں: رد المختار ( 2 / 71 ).
الشيخ رزوق كہتے ہيں:
" اقامت كا جواب نہ دے " اھـ
ديكھيں: مواھب الجليل ( 2 / 132 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ بھى اسے اختيار كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اقامت كا جواب دينے كے متعلق ابو داود نے ايك حديث روايت كي ہے ليكن وہ حديث ضعيف ہے اس سے حجت قائم نہيں ہو سكتى، راجح يہى ہے كہ اقامت كى متابعت يعنى جواب نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 1/ 318 ) اور الشرح الممتع ( 1 / 318 ) طبع مصريہ.
اور حديث " ہر دو اذانوں كے درميان نماز ہے " ميں اقامت كو غالب اعتبار سے اذان كہا گيا ہے، ہميں كہيں بھى نہيں ملا كہ اكيلا اور مفرد طور پر اقامت كو اذان كہا گيا ہو.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شارحين كہتے ہيں كہ يہ اغلبيت كے اعتبار سے ہے جس طرح وہ سورج اور چاند كو قمرين كا نام ديتے ہيں.... "
اور شيخ بكر ابو زيد حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" كسى بھى صحيح اور صريح حديث ميں نہيں ملتا كہ اقامت سننے والا اقامت كا جواب دے جس طرح اذان سننے والے كو اذان كا جواب دينا ہوتا ہے، اور مؤذن كى اذان كا جواب دينے والى عمومى احاديث ميں اس كو شامل ہونا مسلّم نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تفصيلى تعليم صرف اذان كے جواب پر منطبق ہو گى " انتہى
ديكھيں: تصحيح الدعاء ( 394 ) اور مزيد آپ سامى بن فراج الحازمى كى كتاب " احكام الاذان و النداء و الاقامۃ " ( 441 - 443 ) كا بھى مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .