جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كيا بچے ذى روح كى تصاوير اور اشكال بنا سكتے ہيں ؟

102277

تاریخ اشاعت : 18-05-2008

مشاہدات : 6720

سوال

كيا بچوں كے ليے حيوانات يا زندہ كائنات كى تصوير بنانى جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ذى روح كى تصوير بنانا جائز نہيں، چاہے وہ كسى كاغذ پر بنائى جائے يا پھر كپڑے پر يا كسى اور چيز پر يا پھر كريد كر بنى ہو، كيونكہ بخارى اور مسلم ميں اس كى ممانعت آئى ہے:

ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے ايك چٹائى خريدى جس ميں تصاوير تھيں، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ديكھا تو دروازے پر ہى كھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہ ہوئے، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے چہرے سے ناگوارى پہچان لى تو ميں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے توبہ كرتى ہوں، ميں نے كيا گناہ كيا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" يہ چٹائى كيسى ہے ؟ ميں نے عرض كيا ميں نے يہ اس ليے خريدى ہے كہ آپ اس پر بيٹھيں اور اس كے ساتھ ٹيك لگائيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

ان تصويروں والوں كو روز قيامت عذاب ديا جائيگا اور ان سے كہا جائيگا: جو تم نے بنايا تھا اسے زندہ كرو، اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس گھر ميں فرشتے ہوں وہاں فرشتے داخل نہيں ہوتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2105 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2107 ).

النمرقۃ: اس چٹائى كو كہتے ہيں جس پر بيٹھا جائے.

اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو سعيد بن ابو حسن سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كے پاس آيا اور كہنے لگا:

" ميں مصور ہوں اور تصويريں بناتا ہوں، اس كے متعلق آپ فتوى ديں.

تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما اسے كہنے لگے: ميں تمہيں وہ بتاتا ہوں جو ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا آپ نے فرمايا:

" ہر مصور آگ ميں ہے، اس نے جو تصوير بنائى تھى ہر تصوير كے بدلے ايك نفس بنايا جائيگا اور وہ اسے جہنم ميں عذاب دے گى "

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما اسے كہنے لگے: اگر تم نے يہ مصورى كا كام ضرور ہى كرنا ہے تو پھر تم درختوں وغيرہ اور اس كى تصوير بناؤ جس ميں جان اور روح نہيں ہوتى.

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2110 ).

امام نووى رحمہ اللہ صحيح مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:

" ہمارے اصحاب اور دوسرے علماء كا كہنا ہے:

حيوان كى تصوير بنانى بہت شديد حرام ہے، اور يہ كبيرہ گناہ ہے؛ كيونكہ اس پر بہت شديد قسم كى وعيد سنائى گئى ہے جو احاديث ميں مذكور ہے، چاہے وہ ايسى تصوير بنائے جس ميں اہانت ہوتى ہو؛ اس كا بنانا ہر حالت ميں حرام ہے؛ كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كے مخلوق پيدا كرنے ميں مقابلہ اور برابرى ہے.

اور اس ميں كوئى فرق نہيں چاہے وہ تصوير كپڑے ميں بنائى جائے يا پھر كسى چٹائى وغيرہ ميں، يا درھم و دينار پر يا كرنسى اور پيسوں پر، يا كسى برتن پر يا ديوار پر سب برابر ہے.

ليكن درختوں اور اونٹوں كے كجاوہ وغيرہ كى تصوير بنانا جس ميں حيوان اور جانور كى تصوير نہ ہو يہ حرام نہيں ہے " انتہى.

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" تصوير ميں حرمت كا دارومدار اس پر ہے كہ وہ ذى روح كى تصوير ہو، چاہے وہ تصوير كريد كر بنائى گئى ہو، يا پھر رنگ كى ساتھ، يا ديوار پر بنائى گئى ہو، يا كسى كپڑے پر، يا كسى كاغذ پر، يا كپڑے ميں بن كر بنى ہوئى ہو، چاہے وہ برش كے ساتھ بنى ہو، يا قلم كے ساتھ، يا كسى آلے اور مشين كے ساتھ، اور چاہے كسى چيز كى تصوير اس كى طبيعت اور حقيقت كے مطابق ہو، يا پھر اس ميں كوئى تبديلى اور تغير و تبدل كيا گيا ہو، يا اسے ميں كوئى خيالى تبديلى كر كے اسے چھوٹا يا بڑا كيا گيا ہو، يا اسے خوبصورت كر ديا گيا يا اسے بدصورت بنا ديا گيا ہو، يا وہ لائنيں لگا كر جسم كى ہڈيوں كا ہيكل بنايا گيا ہو، يہ سب برابر ہے.

تو حرمت كا دائرہ يہ ہوا كہ جو ذى روح كى تصوير بنائى گئى ہو وہ حرام ہے، چاہے وہ خيالى تصوير ہى ہو، جيسا كہ مثال كے طور پر قديم فراعنہ اور صليبى جنگوں كے قائدين اور فوجيوں كى خيالى تصاوير بنائى جاتى ہيں، اور اسى طرح عيسى عليہ السلام اور مريم عليہا السلام كى تصاوير اور مجسمے جو عيسائيوں كے گرجوں اور چرچوں ميں كھڑے كيے جاتے ہيں.. الخ.

يہ سب عمومى دلائل كى بنا پر حرام ہيں، كيونكہ اس ميں برابرى ہے، اور يہ شرك كا ذريعہ ہيں.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 479 ).

دوم:

اگرچہ بچہ مكلف نہيں ليكن اس كے ولى اور ذمہ دار اور سرپرست كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اسے حرام كام سے منع كرے، اور ايسا كرنے پر اس كى ڈانٹ ڈپٹ كرے، اور برائى سے روكے، اور اس كى تربيت كرے، اور اسے خير و بھلائى كى عادت ڈالے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو جہنم كى آگ سے بچاؤ، جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر سخت قسم كے ايسے فرشتے مقرر ہيں جو اللہ تعالى كى نافرمانى نہيں كرتے، اور وہى كرتے ہيں جس كا انہيں حكم ديا جاتا ہے التحريم ( 6 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

تم ميں سے ہر كوئى ذمہ دار ہے، اور اسے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائے گا...، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے اور وہ اپنى رعايا كے متعلق جوابدہ ہے، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے، اور وہ اپنى رعايا كے بارہ ميں جوابدہ ہو گى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 893 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).

اس ليے بچے كے سرپست اور ذمہ دار و ولى كو چاہيے كہ وہ اسے تصويروں اور ذى روح كے خاكے بنانے سے دور ركھے، اور اسے بتائے كہ يہ حرام ہيں، اور اسے اس كے بدلے كوئى مباح كام تلاش كرنا چاہيے اور يہ موجود ہيں، مثلا سبزيوں اور پھلوں اور درختوں اور سمندر وغيرہ كى تصوير بنانا جس ميں روح نہ ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب