الحمد للہ.
اول:
مسلمان شخص كے ليے مشروع ہے كہ وہ مياں بيوى كے جھگڑے ميں طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرے كيونكہ اس كا نتيجہ اور انجام بہت خطرناك ہے، بہت سارے آدمى طلاق كے معاملہ ميں كوتاہى برتتے ہيں، اور جب بھى بيوى كے ساتھ جھگڑا ہوا طلاق كى قسم اٹھا ليتے ہيں.
جب بھى كسى دوست كے ساتھ جھگڑا ہو طلاق كى قسم اٹھا لى.... تو يہ كتاب اللہ كے ساتھ كھيل ہے، اور پھر يہ ديكھيں كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيوى كو اكٹھى تين طلاق دينے والے شخص كو كتاب اللہ كے ساتھ كھيلنا شمار كرتے ہيں تو پھر جو شخص طلاق كو اپنى عادت ہى بنا لے اس كے متعلق كيا خيال ہو گا، كہ جب بھى وہ اپنى بيوى كو كسى چيز سے روكنا چاہتا ہو يا پھر كسى كام پر ابھارنا چاہيے تو طلاق كى قسم اٹھا لى ؟!
امام نسائى رحمہ اللہ محمود بن لبيد رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايك ايسے شخص كے بارہ ميں بتايا گيا جس نے اپنى بيوى كو تين طلاقيں اكٹھى دے ديں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غصہ ميں آ كر كھڑے ہوگئے اور فرمايا:
" كيا وہ اللہ كى كتاب كے ساتھ كھيل رہا ہے اور ميں تمہارے درميان موجود ہوں! حتى كہ ايك شخص كھڑا ہو كر عرض كرنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ميں اسے قتل نہ كر دوں ؟ "
حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كے رجال ثقات ہيں " ا ھـ
علامہ البانى رحمہ اللہ نے غايۃ المرام ( 261 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ لوگ جو ہر بڑى اور چھوٹى چيز ميں اپنى زبان سے طلاق كے الفاظ نكالتے ہيں بے وقوف اور كم عقل ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بھى مخالف ہيں كيونكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ہمارى راہنمائى كرتے ہوئے فرمايا ہے:
" جو كوئى بھى قسم اٹھانا چاہتا ہے تو وہ اللہ كى قسم اٹھائے يا پھر خاموش رہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2679 ).
اس ليے جب مومن قسم اٹھائے تو اسے اللہ عزوجل كى قسم ہى اٹھانى چاہيے، اور پھر قسم كثرت سے نہيں اٹھانى چاہيے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اپنى قسموں كى حفاظت كرو المآئدۃ ( 89 ).
اس آيت ميں من جملہ تفسير يہ گئى ہے كہ كثرت سے قسميں مت اٹھاؤ.
رہا مسئلہ طلاق كى قسم اٹھانے كا مثلا: اگر تو نے ايسا كيا تو مجھ پر طلاق، يا تم ايسا نہ كرو مجھ پر طلاق، يا اگر ميں نے ايسا كيا تو ميرى بيوى كو طلاق، اگر تو نے ايسا نہ كيا تو ميرى بيوى كو طلاق اور اس جيسے دوسرے الفاظ كہنا تو يہ اس راہنمائى كے ہى خلاف ہے جس كى ہميں رسول كريم صلى اللہ نے راہنمائى دى ہے " انتہى
ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلۃ ( 2 / 753 ).
دوم:
آپ كے خاوند كا يہ كہنا: اگر تم گئى تو تمہيں طلاق، يا ميں تمہيں تمہارے ميكے بھيج دونگا اگر واپس لايا تو تمہيں طلاق، يہ شرط پر معلق طلاق ہے، اس ميں خاوند كى نيت كا اعتبار كيا جائيگا.
اگر خاوند كى نيت تھى كہ بيوى كے جانے كى صورت ميں طلاق ہوگى، يا پھر واپس لانے كى صورت ميں طلاق كى نيت ركھتا تھا تو طلاق واقع ہو جائيگى.
اور اگر اس كى نيت طلاق نہ تھى بلكہ اس نے صرف آپ كو روكنا چاہا تھا تو اس كا حكم قسم والا ہے، اگر بيوى گئى يا وہ خاوند كو واپس لايا تو خاوند پر قسم كے كفارہ كى ادائيگى لازم آئيگى، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" راجح يہى ہے كہ جب طلاق قسم كے معنى ميں استعمال كى جائے مثلا كسى آدمى كا اس سے مراد كئى چيز پر ابھارنا يا پھر كسى چيز سے روكنا يا تصديق كرنا يا تكذيب كرنا يا تاكيد كرنا مراد ہو تو اس كا حكم قسم كا ہوگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جس چيز كو اللہ نے آپ كے ليے حلال كر ديا ہے اسے آپ كيوں حرام كرتے ہيں ؟ ( كيا ) آپ اپنى بيويوں كى رضامندى حاصل كرنا چاہتے ہيں، اور اللہ بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، تحيقيق اللہ تعالى نے تمہارے ليے قسموں كو كھول ڈالنامقرر كر ديا ہے، اور اللہ تمہارا كارساز ہے اور وہى پورے علم والا حكمت والا ہے التحريم ( 1 - 2 ).
تو اللہ سبحانہ و تعالى نے تحريم كو قسم بنايا ہے، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى "
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
اور اس شخص نے طلاق كى نيت نہيں كى، بلكہ قسم كى نيت كى ہے، يا پھر قسم كے معنى كى نيت كى، چنانچہ جب وہ اس كو توڑےگا تو اس كے ليے قسم كا كفارہ كافى ہوگا، يہى قول راجح ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 754 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا: مجھ پر طلاق تم ميرے ساتھ اٹھو، ليكن وہ اس كے ساتھ نہ اٹھى تو كيا اس سے طلاق واقع ہو جائيگى ؟
كميٹى كے علما كا جواب تھا:
" اگر تو اس كا مقصد طلاق دينا نہ تھا، بلكہ صرف بيوى كو اپنے ساتھ جانے پر ابھارنا مقصود تھا تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى، صحيح قول كے مطابق خاوند پر كفارہ لازم آ ئيگا.
اور اگر خاوند كا مقصد طلاق دينا تھا اور بيوى نے اس كى بات نہ مانى تو اسے ايك طلاق ہو گئى ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 86 ).
سوم:
اس ليے اگر خاوند كى نيت طلاق تھى جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے تو آپ كے خاوند كے اس قول " اگر ميں تجھے واپس لايا " ميں نيت ديكھى جائيگى اگر تو اس كا مقصد اور نيت يہ تھى كہ وہ خود نہيں لائيگا ليكن اس ميں كوئى دوسرا آپ كى مدد كرے تو اس ميں كوئى مانع نہيں، يا پھر آپ خود ہى واپس آ جائيں، تو آپ كو چاہيے كہ آپ كسى دوسرے كے ساتھ واپس چلى جائيں تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.
اور اگر آپ كے خاوند كا ہر حال ميں طلاق كا مقصد تھا كہ چاہے وہ خود آپ كو لائے يا كوئى اور يا پھر آپ خود واپس آ جائيں تو ايك طلاق رجعى ـ اگر يہ پہلى يا دوسرى ہو ـ واقع ہو جائيگى، اور دوران عدت خاوند كو رجوع كرنے كا حق حاصل ہے.
چہارم:
اگر آپ كے خاوند نے يہ بات غصہ كى حالت ميں كى تھى تو پھر اس صورت ميں غصہ كى شدت اور درجہ ديكھا جائيگا جيسا كہ سوال نمبر ( 45174 ) اور ( 82400 ) كے جواب ميں تقصيل سے بيان كيا گيا ہے.
واللہ اعلم .