جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

آپ کے سسر کی بیوی آپ کی محرم شمار نہيں ہوگی

10239

تاریخ اشاعت : 05-02-2005

مشاہدات : 7034

سوال

کیا میرے سسر کی بیوی میری محرمات میں شمار ہوگی ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ کے سسر کی بیوی آپ کی محرمات میں شامل نہیں ہوگی ( کیونکہ وہ آپ کی بیوی کی والدہ نہیں ) اس لیے آپ کے لیے اس سے شادی کرنا جائز ہے ، کیونکہ بغیر کسی دلیل اورنص کے تحریم ثابت نہیں ہوتی ، اوراس کی حرمت کی کوئي نص نہیں ملتی ۔

بلکہ اللہ تعالی نے تو جب عورتوں میں سے حرام کردہ عورتوں کا بیان کیا تو اس کےبعد اللہ تعالی نے فرمایا :

۔۔۔۔ اوران کے علاوہ تمہارے لیے حلال ہیں ۔۔۔۔ النساء ( 24 ) ۔

یہی نہیں بلکہ اکثر علماءکے نزدیک تو سسر کی بیوی اورعورت کے مابین جمع کرنا بھی جائز ہے ( یعنی بیوی کے والدہ کے علاوہ اس کے والد کی دوسری بیوی جسے طلاق ہوچکی ہو ) ۔

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

مرد کی بیوی اوراس کی دوسری بیوی کی بیٹی کے مابین جمع اکثر علماء کے نزدیک جائز ہے ، اوربعض سلف نے اسے مکروہ جانا اور ناپسند کیا ہے ۔

دیکھیں جامع العلوم والحکم ص ( 411 ) ۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب کوئي شخص کسی عورت اوراس کے والد کی بیوی سے شادی کرے توابوحنفیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ یہ جائز ہے ہمیں عبداللہ بن جعفر رحمہ اللہ تعالی سے اسی طرح کی روایت پہنچی ہے کہ انہوں نے ایسا کیا تھا ۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

کسی شخص کی بیوی اوراس کی کسی اوربیوی سے بیٹی کے مابین جمع کرنے میں کوئي حرج نہیں ۔ دیکھیں کتاب الام ( 7 / 155 ) ۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ عورت اوراس کے والد کی ( دوسری بیوی ) بیوی کے مابین ، اور اس کے بیٹے کی بیوی اوراس کی چچا زاد کے مابین جمع کرلے ، اس لیے کہ اس کی تحریم میں کوئي نص نہیں ۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی اورامام مالک امام شافعی اورابوسلیمان رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔

دیکھیں المحلی ( 9 / 532 ) ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

اوراس میں کوئي حرج نہیں کہ جوکسی شخص کی بیوی تھی اوراس کی کسی اوربیوی سے بیٹی کوجمع کرلیا جائے ۔

اکثر اہل علم کے ہاں بیوی اوراس کی ربیبہ کے مابین جمع میں کوئي حرج نہيں ( یعنی بیوی کی ربیبہ ) عبداللہ بن جعفر اورصفوان بن امیہ رحمہما اللہ تعالی نے ایسا کیا تھا ، اور حسن ، عکرمہ ، ابن ابن لیلی ، کے علاوہ سب فقھاء کرام کا یہی کہنا ہے صرف ان سے کراہت مروی ہے ۔

وہ یہ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے اگر ایک مذکر ہوتا تو اس پر دوسری حرام ہوجاتی ، تواس طرح یہ عورت اوراس کی پھوپھی کے مشابہ ہوئي ۔

اورہماری دلیل اللہ تعالی کافرمان ہے :

اوراس کے علاوہ باقی تمہارے لیے حلال ہیں النساء ( 24 ) ۔

اوراس لیے بھی کہ ان کے مابین کوئي بھی قرابت اور رشتہ داری نہیں ، تواس طرح یہ دونوں اجنبیوں کے مشابہ ہوئيں ، اوراس لیے بھی کہ جمع اس لیے حرام کیا گيا ہے کہ اس سے دو قریبی متناسب کے مابین قطع رحمی کا خدشہ ہوتا ہے ، اوران دونوں کے مابین تو کوئی قرابت داری ہے ہی نہیں ، تواس سے انہوں نے جو ذکر کیا ہے سے فرق اورجدا ہوجاتا ہے ۔

دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 7 / 98 ) ۔

تواس بنا پر آپ کی بیوی کے والد کی بیوی ( جوآپ کی بیوی کی والدہ نہیں ) آپ کی محرمات میں شامل نہيں ہوگی ، بلکہ وہ آپ کے لیے اجنبیہ ہے آپ اس سے مصافحہ نہیں کرسکتے اورنہ ہی آپ کے لیے اس سے خلوت اوراس کے ساتھ سفرکرنا جائز ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب