منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

قرآن مجید میں کلمۃ " امۃ " کا معنی

10251

تاریخ اشاعت : 23-07-2003

مشاہدات : 8844

سوال

قرآن مجید پڑھتے ہوۓ کئ بار کلمۃ " امۃ " گزرا اور مجھے محسوس ہوا کہ اس کا ایک نہیں کئ ایک معانی ہیں ، کیا یہ صحیح ہے اوراس کلمہ کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


شیخ محمد شنقیطی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :

قرآن مجید میں کلمہ " امۃ " کا استعمال چارطرح ہوا ہے :

اول :

وقت میں سے تھوڑي مدت کے لیے استعمال ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے : ولئن اخرنا عنھم العذاب الی امۃ معدودۃ اوراگر ہم ان سے تھوڑي مدت کے لیے عذاب مؤ‎خر کردیں ۔

اور ایسے ہی اس فرمان باری تعالی میں :

وقال الذی نجا منھما وادکر بعد امۃ اوران دوقیدیوں میں سے جورہا ہوا تھا اسے مدت کے بعد یاد آگیا اور کہنے لگا ۔

دوم :

لوگوں کی ایک جماعت کے لیے استعمال ۔

غالب طور پراسی معنی میں زيادہ استعمال ہوا ہے ، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

ووجد علیہ امۃ من الناس یسقون اور وہاں پر لوگوں میں سے کچھ کو پانی پلاتے ہوۓ پایا ۔

اوراللہ رب العزت کا فرمان ہے :

ولکل امۃ رسول اورہر امت کے لیے رسول ہے

اور فرمان ربانی ہے : کان الناس امۃ واحدۃ لوگ ایک ہی جماعت تھے ، اس کے علاوہ اور بھی کئ آیات ہیں ۔

سوم :

اس شخص کے بارہ میں استعمال ہوا ہے جس کی اتباع کی جاۓ ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

ان ابراھیم کان امۃ بیشک ابراھیم علیہ السلام ایک امت تھے ۔

چہارم :

شریعت اور طریقہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

انا وجدنا آباءنا علی امۃ بیشک ہم نے اپنے آباءواجداد کو ایک طریقے پرپایا ، اور اللہ جل شانہ نے فرمایا :

ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ بیشک یہ تمہارا طریقہ ایک ہی ہے ۔

اس کے علاوہ اوربھی کئ ایک آیات ہیں ۔ .

ماخذ: اضواء البیان للشنقیطی (3/13)