الحمد للہ.
عورت اگر شادی شدہ ہو تو اس کا خرچہ خاوند کے ذمہ فرض ہے، اور اگر خاوند کا ہاتھ تنگ ہے یا ویسے ہی خرچہ نہیں کرتا اور عورت بہت غریب ہے اس کے پاس ذاتی کوئی مال نہیں ہے تو اسے زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
اور آپ پر بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ انہیں اپنی زکاۃ دیں، کیونکہ آپ کے ذمہ ان کا خرچہ فرض نہیں ہے۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی"
(2/279) میں کہتے ہیں:
"اگر عورت غریب ہو اور خاوند صاحب حیثیت ہو ، اور اسکا مکمل خرچہ برداشت کرتا ہو تو
اسے زکاۃ نہیں دی جا سکتی؛ کیونکہ اس کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔۔۔ اور اگر خاوند
اس پر خرچ نہ کرے تو اس صورت میں اسے زکاۃ دینا جائز ہے، امام احمد نے اس بارے میں
صراحت بھی کی ہے" انتہی مختصراً
نووی رحمہ اللہ "المنہاج" میں کہتے ہیں:
"جس غریب کا خرچہ کسی رشتہ دار یا خاوند کی ذمہ داری کی وجہ سے پورا ہو رہا ہو تو
وہ صحیح موقف کے مطابق فقیر یا مسکین نہیں رہتا"
"مغنی المحتاج" (4/176)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میری ایک شادی شدہ بہن سفید پوشی کی زندگی گزار رہی ہے، کیا میں اپنی زکاۃ کا کچھ
حصہ اپنی بہن کو ان کا معیار زندگی بلند کرنے ، اور بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے دے
سکتا ہوں، ویسے بھی اس کا خاوند صرف اپنا ہی خیال کرتا ہے اور ہم اسے سمجھا سمجھا
کر تھک چکے ہیں"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر وہ خاتون غریب ہے، اور خاوند اس پر خرچ بھی نہیں کرتا، اور آپ لوگ اس کی اصلاح
بھی نہیں کر پائے، اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ ہے جس کی وجہ سے خاوند کو خرچ کرنے
کیلئے آمادہ کیا جائے، تو اس خاتون کی ضرورت کے مطابق اسے زکاۃ دی جا سکتی ہے"
انتہی
"فتاوى شیخ ابن باز" (14/269)
شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک شخص کی بھانجی کی دو بیویوں والے مرد سے شادی ہوئی ہے، تو کیا وہ اپنی بھانجی
کو زکاۃ دے سکتا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ہاں ماموں اپنی بھانجی کو زکاۃ دے سکتا ہے بشرطیکہ بھانجی غریب ہو اور اس کا خاوند
تنگ دستی کی وجہ سے یا بخیلی کی وجہ سے اس پر خرچ نہ کرتا ہو"
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح
الممتع" (6/257) میں کہتے ہیں:
"مصنف کا کہنا ہے کہ: "غریب عورت اگر کسی مالدار اور خرچ کرنے والے شخص کے عقد
میں ہو تو اسے زکاۃ نہ دے"
یہاں مؤلف نے دو شرائط لگائی ہیں:
1- مالدار شخص کے عقد میں ہو۔
2-
خاوند خرچ کرنے والا ہو۔
تو ایسی صورت اسے زکاۃ نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ حقیقت میں غریب نہیں ہے، اس لیے
کہ اس کا خاوند اس پر خرچ کرتا ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔
چنانچہ اگر کسی غریب شخص کے عقد میں ہو تو میاں بیوی دونوں کیلئے زکاۃ لینا جائز ہے، کیونکہ ان میں زکاۃ کے مستحقین کی صفات پائی جا رہی ہیں۔
اسی طرح اگر غریب لڑکی کسی مالدار شخص کے عقد میں تو ہے لیکن وہ
کنجوس ترین شخصیت کا مالک ہے؛ تو اسے بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے ؛ کیونکہ یہ لڑکی غریب
ہے، ار اپنے خاوند کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری نہیں کر پاتی، اس لیے یہ لڑکی فرمان
باری تعالی :
(
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ...)
ترجمہ: بیشک صدقات فقراء اور مساکین کیلئے ہیں۔۔۔۔ کے تحت فقیر ہے۔
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ: آپ اس لڑکی سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ اپنے خاوند سے خرچہ مانگو اور عدالت سے رجوع کرو؟
تو ہم اسے یہ جواب دینگے کہ: ہم اسے یہ بات نہیں کہیں گے؛ کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لیں گے، بلکہ معاملہ طلاق تک بھی جا سکتا ہے، اور اس کا نقصان عورت کو ہوگا، چنانچہ اس نقصان سے بچانے کیلئے اس کی ضرورت زکاۃ سے پوری کرنا یقینی بات ہے کہ یہ بھی شرعی حکمت ہی ہے" انتہی مختصراً
خلاصہ یہ ہے کہ:
آپ اپنی زکاۃ اپنی خالہ کو دے سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ غریب ہو یا مسکین ہو، اور خاوند
اس کی ضروریات کے مطابق اس پر خرچ نہ کرتا ہو۔
واللہ اعلم.