الحمد للہ.
گھر ميں بيوى كا بہت زيادہ دخل اور اہميت ہے، بيوى صالح اور نيك و اچھى ہو تو ان شاء اللہ گھر اور اولاد بھى اچھى و بہتر ہوگى، اور اگر بيوى خراب اور غلط ہو تو پھر اس ازدواجى گھر كى خراب حالت كا اندازہ بھى نہيں كيا جا سكتا، خاوند نہ تو گھر ميں سكون حاصل كر سكتا ہے، اور نہ اسے محبت و مودت اور الفت حاصل ہوتى ہے، اور اسى طرح اولاد پر بھى منفى اثر پڑيگا، اس كا مشاہدہ بھى ہوا ہے اور اس ميں كوئى اختلاف بھى نہيں كر سكتا.
ہميں ناصح اور امين رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين والى عورت سے شادى كرنے كى نصيحت كرتے ہوئے فرمايا ہے:
" عورت سے چار وجوہات كى بنا پر شادى كى جاتى ہے: اس كے مال و دولت كى بنا اور اس كے حسب و نسب اور خاندان كى وجہ سے، اور اس كے حسن و جمال اور خوبصورتى كى بنا پر، اور اس كے دين كى وجہ سے، تمہارے ہاتھ خاك آلودہ ہوں تم دين والى كو اختيار كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4802 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
اس ليے آپ اس مبارك نصيحت پر عمل كرنے ميں كوتاہى مت برتيں، اور يہ علم ميں ركھيں كہ بيوى تو انسان كى عزت و شرف ہوتى ہے، اور وہ اس كى اولاد كى تربيت كرنے والى ہوتى ہے، اور اس كے مال و دولت اور گھر كى امين ہوتى ہے.
اس ليے جو عورت ايسے امور كى حفاظت نہ كر سكے، اور وہ ان امور كو كما حقہ بجا لانے ميں كوتاہى كى مرتكب ہو اس ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، اور پھر انسان تو اپنے معاشرے ميں رچا بسا ہوتا ہے، وہ معاشرے اور گھر كے ماحول كا بيٹا ہوتا ہے.
جب ماحول اور معاشرے كا مرد پر اثر ہوتا ہے اور مرد ميں اس كا ظہور ہوتا ہے تو پھر يہ چيز تو عورتوں ميں زيادہ ظاہر اور قوى ہو گى، چنانچہ جو عورت كسى غير ملك ميں رہ كر جوان ہوئى اور اس كى پرورش ايسے گھر ميں ہوئى جو دينى التزام نہ ركھے تو بلا شك و شبہ اس عورت پر اس ماحول اور اس گھر كے اثرات ضرور ظاہر ہونگے.
الا يہ كہ جن بعض افراد پر اللہ سبحانہ و تعالى رحم كرے اور انہيں ہدايت و استقامت كى توفيق بخشے وہ اس ماحول ميں بھى صحيح رہتے ہيں.
اگر وہ عورت ہدايت پر آنا چاہتى ہو، اور اپنے ماضى سے چھٹكارا حاصل كرنا چاہے، اور يہ چاہتى ہو كہ كوئى شخص اس ہاتھ پكڑ كر استقامت كى طرف لے جائے تو پھر ہم آپ اس سے شادى كرنے كى نصحيت كرتے ہيں، اور ہم چاہيں گے كہ اس سے شادى كر لو.
ليكن اگر اس يہ حالت نہ ہو اور وہ اپنے آپ كو تبديل نہ كرنا چاہتى ہو تو پھر ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس سے شادى مت كريں، بلكہ اس كے علاوہ كوئى اور تلاش كريں، اميد ہے كہ آپ كو جلد يا بدير كوئى دين والى عورت مل جائے اور آپ اس سے شادى كر كے خوشى حاصل كريں.
ذيل ميں ہم اپنے قول اور نصيحت كى تائيد ميں علماء كرام كے فتاوى جات نقل كرتے ہيں:
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميرا ايك بھائى بےپرد لڑكى سے شادى كرنا چاہتا ہے اس سلسلہ ميں مجھ پر كيا ذمہ دارى عائد ہوتى ہے، اور منگنى ہونے كے بعد آپ اسے كيا نصيحت كرتے ہيں، اور اگر شادى كى تقريب ميں گھر كے اندر موسيقى اور گانے بجانے كے آلات استعمال كرے تو مجھ پر كيا ذمہ دارى عائد ہو گى ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" آپ اسے نصيحت كريں كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان پر عمل كرتے ہوئے كسى دين والى عورت سے شادى كرے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم دين والى كو اختيار كرو "
آپ شادى كى اس تقريب ميں شريك مت ہوں جس ميں موسيقى اور گانے بجانے كے آلات استعمال كيے جائيں، ليكن اگر آپ اس برائى كوروكنے كى طاقت ركھتے ہوں تو پھر اس تقريب ميں شريك ہو سكتے ہيں، اور اگر اس كى استطاعت نہ ركھتے ہوں كم از كم برائى سے اجتناب كريں " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 182 - 183 ).
كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال بھى كيا گيا:
ايك شخص نے ايسى عورت سے شادى كى جو اسلامى لباس زيب تن نہيں كرتى اسلام ميں ايسے شخص كا حكم كيا ہے، اس كى بےپردگى كا گناہ اس شخص كو ہوگا يا نہيں ؟
اس شخص نے اسے بےپردگى سے باز رہنے كى نصيحت بھى كى اور پردہ كرنے كا حكم بھى ديا ليكن وہ نہ مانى تو كيا وہ اسے طلاق دے دے كيونكہ وہ اسلامى لباس زيب تن نہيں كرتى، حالانكہ وہ پردہ كو فرض بھى تسليم كرتى ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" خاوند اسے نصيحت كرتا رہے اور بہتر طريقہ سے اس كى راہنمائى كرے؛ اميد ہے اللہ سبحانہ و تعالى اسے ہدايت و توفيق سے نواز دے، جب خاوند اسے نصيحت كى كوشش كرے اور اس كى راہنمائى كرے تو خاوند پر گناہ نہيں، اور اگر اس كے باوجود بھى وہ اس برائى پر اصرار كرتى ہے تو پھر وہ اسے طلاق دے دے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 181 ).
شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ بيوى كى صفات بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" بيوى ديندار ہونى چاہيے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورت سے چار وجوہات كى بنا پر شادى كى جاتى ہے: اس كے مال و دولت كى بنا اور اس كے حسب و نسب اور خاندان كى وجہ سے، اور اس كے حسن و جمال اور خوبصورتى كى بنا پر، اور اس كے دين كى وجہ سے، تمہارے ہاتھ خاك آلودہ ہوں تم دين والى كو اختيار كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4802 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
دين والى عورت اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى ميں اپنے خاوند كى ممد و معاون ثابت ہوتى ہے، اور اس كے ہاتھ پر تربيت پانے والى اولاد بھى نيك و صالح رہتى ہے، اور اسى طرح خاوند كى غير موجودگى ميں اس كے مال و عزت اور گھر كى حفاظت كرتى ہے.
ليكن جو بيوى دين والى نہ ہو ہو سكتا ہے وہ مستقبل ميں اسے نقصان و ضرر دے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" تم دين والى كو اختيار كرو "
چنانچہ جب دين كے ساتھ حسن و جمال اور مال و دولت اور حسب و نسب بھى جمع ہو جائے تو پھر نور على نور ہے، وگرنہ دين والى ہى اختيار كرنى چاہيے.
اگر كسى شخص كى دو بيوياں ہوں ان ميں سے ايك حسين و جميل ہو اور اس ميں فسق و فجور نہ پايا جائے اور دوسرى اتنى زيادہ خوبصورت تو نہ ہو ليكن حسين و جميل سے زيادہ دين والى ہو تو دونوں ميں سے كسے اختيار كرے ؟
اسے دين والى اختيار كرنى چاہيے.
ہو سكتا ہے كوئى شخص كہے: ميں ايسى عورت سے شادى كرنا چاہتا ہوں جو دين والى نہيں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اسے ميرے ہاتھ پر ہدايت نصيب كر دے ؟
ہم اسے يہ كہيں گے كہ: ہم مستقبل كے مكلف نہيں، كيونكہ مستقبل كے بارہ ميں تو كسى كو علم نہيں، ہو سكتا ہے تم اس سے اس ليے شادى كرو كہ اللہ تعالى اسے تمہارے ہاتھ پر ہدايت نصيب كر دے، ليكن وہ تمہيں بھى ايسا ہى بنا دے جيسى خود ہے، اس طرح تم اس كے ہاتھوں شقى و بدبخت بن كر رہ جاؤ " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 13 / 14 ).
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 96584 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے ليے نيك وصالح بيوى كے حصول ميں آسانى پيدا فرمائے، اور آپ دونوں كي نيك و صالح خاندان بنانے ميں مدد فرمائے.
واللہ اعلم .