الحمد للہ.
خاوند كا اپنى بيوى كو كہنا: " جب ميں اپنے گھر والوں لے كر جاؤں يا انہيں لاؤں تو مجھ پر طلاق " يہ ايك شرط پر معلق كردہ طلاق ہے، اگر تو وہ اس گھر والوں كو لے جانے يا لانے كى حالت ميں طلاق واقع ہونا مراد لے تو علماء كا اتفاق ہے كہ اس سے طلاق واقع ہو جائيگى.
ليكن اگر وہ اس سے دھمكى مراد لے اور خوفزدہ اور منع كرنا چاہتا ہو اور اس سے طلاق مراد نہ ہو اس ميں فقھاء كا اختلاف ہے، اكثر اہل علم يہى فتوى ديتے ہيں كہ اس صورت ميں طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ اس پر قسم توڑنے كى صورت ميں قسم كا كفارہ لازم آئيگا.
اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 102331 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر اگر تو خاوند كا ارادہ طلاق دينے كا نہيں تھا تو كچھ نہيں ہوگا، چاہے وہ انہيں اسى دن لے كر جائے يا بعد ميں كسى اور دن.
اور اگر وہ طلاق واقع كرنا تو چاہتا تھا ليكن وہ كہتا ہے كہ ميرى مراد صرف اسى دن تھى، تو اگر اس دن كے بعد كسى اور دن انہيں لے كر گيا يا لايا تو اس پر كچھ نہيں ہے، اس كى نيت پر عمل ہوگا اور اللہ سبحانہ و تعالى كو اس كى نيت كا علم ہے.
ہم اس خاوند كو بھى اور دوسروں كو بھى يہى نصيحت كرتے ہيں كہ طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب ہى كريں نہ تو غصہ كى حالت ميں طلاق كے الفاظ منہ سے نكاليں اور نہ ہى عام حالت ميں، كيونكہ اس كے نتيجہ ميں آدمى كے نہ چاہتے ہوئے بھى خاندان كا شيرازہ بكھر جاتا ہے.
واللہ اعلم .