الحمد للہ.
اگر کسی کے پاس نصاب کے برابر سرمایہ جمع ہو گیا اور سال بھی گزر گیا تو اس پر زکاۃ ادا کرنا واجب ہے، سونے کا نصاب 85 گرام ہے اور چاندی کا نصاب 595 گرام ہے، اس میں سے صرف 2.5 فیصد یعنی چالیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کرنا ہے۔
چنانچہ اگر سرمایہ کسی دوست کے ساتھ کاروباری شراکت میں یا کسی اسلامی بینک میں لگایا گیا ہے اور اس سے نفع بھی حاصل ہوا ہے تو نفع کی زکاۃ بھی رأس المال کے ساتھ ادا کی جائے گی، اور زکاۃ کے لیے نفع کا سال بھی رأس المال والا سال ہو گا۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ تجارت کی وجہ سے حاصل ہونے والے نفع کے متعلق کہتے ہیں:
"اس نفع کو اصل مال کے ساتھ ملانا ضروری ہے چنانچہ [زکاۃ کے لیے] اصل مال کا سال ہی نفع کا سال شمار ہو گا۔ یہ سب کا متفقہ موقف ہے، ہمیں اس بارے میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں ہے۔" ختم شد
"المغنی" (2/258)
اس بنا پر: اگر مثال کے طور پر آپ کے پاس 10000 ریال ہیں، اور اس کا سال رمضان میں پورا ہو رہا ہے تو جب رمضان آئے تو رأس المال کے ساتھ رمضان تک حاصل ہونے والے نفع کو بھی شامل کریں، اور زکاۃ ادا کرتے ہوئے آپ بینک سے یا دوست سے اپنے نفع کے متعلق پوچھ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم