جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

اس لڑكى كے بارہ ميں آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں؟

104407

تاریخ اشاعت : 03-11-2010

مشاہدات : 5715

سوال

مجھے يہ مشكل درپيش ہے كہ ميں ايك لڑكى سے دل لگا بيٹھا ہوں كيونكہ پہلے يہ ميرى منگيتر رہى ہے، كچھ مشكلات پيدا ہو گئيں تو ميں نے اسے چھوڑ ديا، يہ مشكلات اس ليے پيدا ہوئيں كہ ہم نے لوگوں كو نكاح كے متعلق بتا ديا تھا ليكن اس كے بعد لڑكى نے نكاح كے بارہ ميں اپنى رائے تبديل كر لى تو ہم مشكلات كا شكار ہو گئے.
اب ميں نے دوبارہ رشتہ طلب كيا ہے ليكن ابھى تك اس كے گھر والوں نے كوئى جواب نہيں ديا، ميں نے ايك جگہ لڑكى كو ديكھا تو وہ مجھے كہنے لگى ميں تم سے شادى نہيں كرنا چاہتى.
ميرا اس لڑكى سے منگنى كے عرصہ ميں تعلق رہا ہے، ہم روزانہ انٹر نيٹ اور ٹيلى فون كے ذريعہ بات چيت كيا كرتے تھے، اور دو برس تك يہ تعلق قائم رہا ، ہم صرف ايسى بات چيت ہى كرتے جو اللہ كو راضى ہو.
اس ليے كہ ميرا دل اس لڑكى سے لگا ہوا ہے اب ميں اسے بھول نہيں سكتا، بلكہ ميں اس سے محبت كرتا ہوں، اور جب ميں نے اسے دين پر عمل كرتے ہوئے ديكھا تو ميرى اس سے محبت اور بھى زيادہ ہو گئى، ليكن ميں جب بھى كسى جگہ اسے ديكھتا ہوں تو وہ ميرے ساتھ شادى كرنے سے انكار كرتى ہے. ميں نمازى اور اللہ سے ڈرنے والا آدمى ہوں اللہ سے دعا كرتا رہتا ہوں كہ وہ دنيا كے فتنوں سے ميرى حفاظت فرمائے، ميں شادى كر كے اپنى اور لڑكى كى حفاظت كرنا چاہتا ہوں!! ميں اس لڑكى كى پردہ پوشى بھى كرنا چاہتا ہوں كيونكہ اس نے مجھے اپنى تصوير دى تھى جس ميں وہ سر اور كندھوں سے ننگى ہے اور بال بھى نظر آ رہے تھے، جب اس نے تصوير واپس مانگى تو ميں نے وہ تصوير بھى اسے واپس كر دى!!
برائے مہربانى آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں اور اس لڑكى كے ليے آپ كى كيا نصيحت ہوگى، اور يہ بتائيں كہ ہمارے ليے بہتر اور افضل كيا ہے، اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كى مشكلات ختم كرے، اور دنيا و آخرت كى سعادت عطا فرمائے، اسى طرح اللہ سبحانہ و تعالى سے يہ بھى دعا ہے كہ آپ كى عفت وعصمت كى طرف كوشش و كاوش قبول فرمائے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كى رضا و خوشنودى والے كام كى رغبت پورى كرے.

پھر ہمارى آپ كو يہ نصيحت ہے كہ آپ اس لڑكى كے ساتھ اپنے تعلقات پر غور و فكر كريں، كہ شادى تك پہنچنے كے ليے آپ نے دو برس كا ايك طويل عرصہ گزارا اور يہ عرصہ ناكامى كا شكار ہوگيا، اس كے پيچھے حقيقتا كوئى ايسے اسباب ضرور ہيں جن كى بنا پر يہ ناكامى ہوئى ہے.

ان اسباب ميں سب سے اہم سبب يہ معلوم ہوتا ہے كہ ـ اگر تو صرف منگنى ہوئى تھى اور عقد نكاح نہيں ہوا تھا ـ اللہ كى حدود سے تجاوز كرتے ہوئے آپ كا آپس ميں بات چيت كرنے ميں مبالغہ كرنا، اور روزانہ ايك دوسرے سے رابطہ كرنا حالانكہ آپ دونوں كے مابين كوئى شرعى ربط نہيں تھا.

اور يہ زيادتى اور حد سے تجاوز آج كل معروف اور عام ہے اور دليل يہ دى جاتى ہے كہ ايسا تعارف اور آپس ميں الفت پيدا كرنے كے ليے كيا جاتا ہے، يہ ثابت ہو چكا ہے كہ اس وہمى مصالح كى بجائے فساد اور خرابى ہى پيدا ہوتى ہے، اس كے ليے ضرورى ہے كہ معاملہ كو شرعى ناحيہ سے ہى ديكھا جائے اور اسے حقيقى شرعى طريقہ سے حل كيا جائے.

اور وہ حقيقى اور شرعى طريقہ عقد نكاح ہے، كہ نكاح كر ديا جائے تو پھر بات چيت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، وگرنہ دونوں طرف ہى اپنے آپ پر زيادتى كرتے ہيں، اور غالبا بہت سارى مشكلات كا شكار ہو جاتے ہيں، اور يہ ياد رہے كہ جو تعلق بھى غير شرعى طور پر شروع ہو تو اس كا انجام صحيح نہيں ہوتا وہ تعلق ختم ہو كر ضائع ہو جاتا ہے.

اس ليے ہمارى تو آپ كو يہى نصيحت ہے كہ آپ سابقہ اور پچھلے ايام كو توبہ و استغفار كے ذريعہ بند كر كے ختم كريں، اور آئندہ پختہ عزم كريں كہ نيا صفحہ شريعت كے مطابق عقل و دانش كے ساتھ ہى كھوليں گے جس ميں اول اور آخرى حكم شريعت ہى ہوگى، نہ كہ جذبات كيونكہ جذبات تو تكليف و ناكامى كى طرف لے جانے كا باعث بن سكتے ہيں.

آپ كو آج جو چيلنج درپيش ہے وہ اس پر قدرت ہے كہ آپ مخلوق كو چھوڑ كر خالق عزوجل كے ساتھ ربط اور تعلق قائم كريں، يہى وہ واجب ہے جو مسلمان شخص كى سعادت حقيقى طور پر دلانے كا باعث بنتا ہے، اور يہ سعادت اسے ہى حاصل ہو سكتى ہے جو اللہ كے حكم كے سامنے سرخم تسليم كرتا ہے.

كيونكہ اللہ خالق كائنات كے علاوہ كسى اور سے تعلق قائم كرنا انسان كے ليے ذلت و رسوائى كا باعث ہے، اور ان كے ليے غم و پريشانى اور مشكلات لانے كا سبب بنتا ہے، اور اس طرح وہ ايك ايسے ٹوٹے ہوئے پر كى طرح ہو جاتا ہے جو محبوب كے پيچھے ہى چلتا ہے جہاں وہ جائے اسى طرح اڑتا جاتا ہے، اور جہاں وہ رك جائے وہيں گر پڑتا ہے، اور يہ چيز ايسى ہے جسے نہ تو اللہ سبحانہ و تعالى پسند كرتا ہے، اور نہ ہى كوئي عقل و دانش ركھنے والے شخص اسے اپنے ليے پسند كرتا ہے.

آپ نے اس لڑكى كا رشتہ طلب كر كے وہى كام كيا ہے جو آپ كو كرنا چاہيے تھا، چاہے اس كا نتيجہ جو بھى ہو ان شاء اللہ آپ كے ليے اسى ميں خير و بہترى ہوگى.

اگر تو وہ يہ رشتہ قبول كر ليتى ہے تو اس نے اسے قبول ہى اس ليے كيا كہ وہ اس ماضى كو بھول چكى ہے جس ميں بہت سارے اختلافات تھے جن كى بنا پر آپ ميں عليحدگى ہوئى، تا كہ يہ چيز آپ كے ليے عبرت كا باعث ہو كہ اختلافات اور مخالفت كے اسباب سے دور ہى رہنا چاہيے، اور ہميشہ افہام و تفہيم كى كوشش كى جائے، اور آپ دونوں ميں سے ہر ايك وہى كرے جس سے دوسرا شخص اور دوست راضى ہو جائے.

ليكن اگر وہ اس رشتہ سے انكار كر ديتى ہے تو آپ كے دل اور نفس كے ليے يہ باعث اطمنان ہونا چاہيے نہ كہ باعث و غم و پريشانى، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كو ايسى لڑكى كے شر سے محفوظ ركھا ہے جو صحيح نہ تھى، اس ليے آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے دل ميں اسے جگہ مت ديں جو آپ كو اپنا خاوند نہيں بنانا چاہتى اور نہ ہى قريبى ركھنا چاہتى ہے.

اور يہى چيز آپ كے ليے سبب بننا چاہيے كہ آپ كسى ايسى لڑكى كو تلاش كريں جو آپ كو چاہتى ہو اور آپ كو ديكھنے اور آپ كى موجودگى سے راحت حاصل كرتى ہو نہ كہ آپ سے تعلق بنانے اور شادى كرنے ميں متردد ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو حالانكہ حقيقتا وہ تمہارے ليے بہتر ہو، اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو پسند كرو اور حقيقتا وہ تمہارے ليے برى ہو، اللہ تعالى خوب جانتا ہے اور تم نہيں جانتے البقرۃ ( 216 ).

اس آيت كى تفسير ميں شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" غالبا مومن بندہ جب امور ميں سے كسى كام اور معاملے كو پسند كرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے ايسے اسباب مہيا كر ديتا ہے جو اسے اس كام سے اس طرف لے جاتے ہيں جو اس كے ليے بہتر اور اچھا ہوتا ہے، اس كے ليے اس ميں سب سے زيادہ توفيق كى بات يہى ہے كہ وہ اس پر اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ادا كرے، اور فى الواقع خير و بھلائى بنائے؛ كيونكہ اسے علم ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندے كے ليے اس كے نفس سے بھى زيادہ رحم كرنے والا ہے، اور بندے كى مصلحت پر بندے سے زيادہ قادر ہے، اور اس كى مصلحت كو اللہ تعالى زيادہ جانتا ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى كو بخوبى علم ہے تمہيں علم نہيں .

اس ليے تمہارے ليے يہى لائق ہے كہ تم اللہ سبحانہ و تعالى كے مقدر كردہ كے مطابق چلو چاہے وہ تمہيں اچھا لگے يا پھر تمہيں برا محسوس ہوتا ہو " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 96 ).

اس ليے دنيا ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے جو رزق آپ كے ليے لكھا نہيں اس كا لالچ اور طمع مت كريں، كيونكہ يہ تو اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے تقدير تقسيم كر دى گئى ہے اور وقت لكھا جا چكا ہے، اور آپ كو وہى مل سكتا ہے جو آپ كے ليے لكھا گيا ہے، اس ليے جو پسنديدہ چيز آپ كو نہيں مل سكى اس پر غم مت كريں، اور جو جب مطلوبہ چيز حاصل ہو جائے تو خوش مت ہوں، بلكہ ہميشہ اللہ سبحانہ و تعالى سے ثابت قدمى اور اطمنان قلب اور رضا و خوشنودى اور قناعت طلب كرتے رہا كريں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" وہى كامياب ہے جو اسلام لايا اور كفائت والا رزق ديا گيا اور اللہ نے اسے جو ديا اس پر قناعت دى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1054 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے تو دل كو محبت و فاء اور اخلاص و احترام كا منبع بنايا ہے، اور يہ چشمہ اسى وقت بند ہو سكتا ہے جب جسم بےجان ہو كر موت سے ٹھنڈا ہو جائے، آپ كے ليے اسى وقت ممكن ہے كہ آپ نااميد ہوں اور خوف كريں كہ جو محبت كا مستحق ہے اس سے دل محبت نہ كرے.

ليكن آپ اپنے دل كو اس پر مطئمن كرنے كى كوشش كريں كہ يہى سنہرى اور آخرى و منفرد موقع اور فرصت ہے، اور يہ قربانى كا قصہ ہے كہ زندگى ميں اس لڑكى كے علاوہ آپ كو سعادت ہى حاصل نہيں ہو سكتى، تو پھر مجھے آپ يہ كہنے كى اجازت ديں كہ:

آپ كا يہ خيال غلط ہے، اور شيطان آپ كے دل ميں يہ باتيں ڈال رہا ہے اور آپ كو اميديں دلا رہا ہے، اگر آپ نے اس كى بات مان لى اور اس سے تعلق ركھا تو آپ كو شقاوت و بدنصيبى كے علاوہ كچھ حاصل نہيں ہوگا.

اور پھر ان شاء اللہ اس كا حل تو بہت آسان ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ قلبى الم و تكليف كو برداشت كرنے كى كوشش كريں، اور يہ يقين كر ليں كہ يہ طويل نہيں ہو سكتا، بلكہ چند ايام يا پھر چند ہفتوں كى بات ہے، اور علم نفس كے ماہرين تو آخرى چھ ماہ قرار ديتے ہيں، اس ميں دل جدائى يا موت كے غم و پريشانى سے تسلى حاصل كر ليتا ہے، اور اس عرصہ كے بعد وہ اپنى اصلى حالت بلكہ اس سے بھى قوى حالت ميں واپس آ جاتا ہے. ان شاء اللہ.

اور پھر ايك قاعدہ اور اصول بھى ہے جس پر سب دانشور اور مربى اور حكماء و علماء اور علم نفس كے ماہرين اور ماہرين تجربہ كار لوگ متفق ہيں كہ:

دنيا ميں ہر شخص كے ليے كسى بھى دوسرے شخص سے مستغنى ہونا ممكن ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى نے دلوں اور نفوس كى حاجت تو اپنے تك محصور كى ہے، اور اسے بشر سے بالكل منقطع كيا ہے.

اس ليے جب آپ اس حقيقت كا ادراك كر ليں تو آپ كے ليے سب كچھ آسان ہو جائيگا، اور آپ اپنى دنيا بھى كما ليں گے، اور اپنا دل بھى اور آخرت بھى حاصل كر ليں گے، اور اپنے آپ سے شيطانى وسوسے اور وہ بھى دور كر ليں گے.

پھر اگر آپ ذرا ٹھنڈے دل اور پورى عقل كے ساتھ اس پر غور كريں كہ اگر اللہ تعالى نے آپ كے ليے اس لڑكى كو بطور بيوى آسان كر ديا تو ٹھيك ہے، اور اگر آپ كے ليے يہ لڑكى بطور بيوى ميسر نہيں ہوتى تو اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ سبحانہ و تعالى ہر ايك كو اپنى وسعت سے غنى كر ديگا، اور اللہ تعالى بڑى وسعت والا اور حكمت والا ہے النساء ( 130 ).

ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس قاعدہ اور اصول كو يا دركھيں اور اس پر ايمان لاتے ہوئے اس كى روشنى ميں عمل كريں.

آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ كر كے بھى معاونت حاصل كر سكتے ہيں:

سوال نمبر  ( 81991 ) اور ( 101713 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب