جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خاوند نے طلاق كى قسم اٹھائى كہ اگر آواز سنى تو گھر سے نكال ديگا

104587

تاریخ اشاعت : 09-03-2011

مشاہدات : 4098

سوال

كيا طلاق كى قسم ميں مطلقا الفاظ كا اعتبار ہو گا يا كہ قسم اٹھانے والے كى نيت كا اعتبار كيا جائيگا ؟
مثلا كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق كى قسم اٹھاتے ہوئے كہا كہ: اگر ميں نے تيرى آواز سنى تو تجھے گھر سے نكال دونگا، اس سے اس كا مقصد يہ ہو كہ وہ بلند آواز سے نہ روئے تا كہ پڑوسى اس كى آواز نہ سن سكيں، تو بيوى پست آواز ميں روئے، اور خاوند اسے گھر سے نہ نكالے تو كيا طلاق واقع ہو جائيگى ؟
يا كہ صرف يہ قسم ہو گى جس كا كفارہ ادا كرنا ہو گا، اور كيا كسى بھى آواز پر حكم لگايا جائيگا يا كہ جو اس نے نيت كى تھى اسى پر ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

معلق كردہ طلاق مثلا خاوند كا بيوى كو كہنا: اگر ميں نے تيرى آواز سنى تو تجھے طلاق.

اس مسئلہ ميں اہل علم كا اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور علماء كرام كے ہاں طلاق واقع ہو جاتى ہے، ان كے ہاں خاوند كى نيت نہيں ديكھى جائيگى كہ آيا اس نے طلاق كا ارادہ كيا تھا يا نہيں ؟

اور بعض اہل علم ـ اور ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے ـ كہٹے ہيں كہ اس طلاق ميں قائل كى نيت كو ديكھا جائيگا، اگر تو اس نے كسى چيز پر ابھارنا چاہا ہو، يا پھر كسى كام سے روكنا چاہا ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ قسم ٹوٹنے كى صورت ميں خاوند كو قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اور اگر وہ طلاق كا ارادہ ركھتا ہو شرط پورى ہونے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى.

اور پھر نيت كا علم تو اللہ سبحانہ و تعالى كو ہى ہے كيونكہ اس پر تو كوئى بھى چيز مخفى نہيں رہتى.

اس ليے مسلمان شخص كو اپنے پروردگار پر حيلہ سازى كرنے سے اور اپنے آپ كو دھوكہ دينے سے اجتناب كرنا چاہيے.

طلاق كى قسم يہ ہے كہ خاوند كہے: مجھ پر طلاق يا مجھ پر طلاق لازم ہے اگر ميں نے تيرى آواز سنى، اس كلام ميں بھى مندرجہ بالا اختلاف پايا جاتا ہے.

اس ويب سائٹ دوسرے قول كے مطابق ہى فتوى ديا گيا ہے وہ يہى ہے كہ خاوند كى نيت كا اعتبار كيا جائيگا.

يہ تو اصل قسم يا طلاق معلق كرنے كے بارہ ميں ہے.

اور پھر خاوند كى نيت كے اعبتار كے ليے بھى خاوند كى مراد ہى معتبر ہو گى، اور جس مدت ميں وہ بيوى كو روكنا چاہتا ہے اس كى تحديد بھى خاوند كى بات ہى مانى جائيگى.

اس ليے اگر خاوند كے قول: " اگر ميں نے تيرى سنى تو " سے اس كى مراد يہ ہو كہ اگر پڑوسيوں نے يہ آواز سنى تو اس نيت پر عمل كيا جائيگا، لہذا اگر وہ پست آواز ميں روئى كہ پڑوسى اس كو نہ سن سكيں تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

اور اسى طرح اگر خاوند كى نيت يہ ہو كہ صرف اس وقت ہى آواز بلند نہ كرنا تو بھى اس كى نيت پر عمل كيا جائيگا.

صورت مسئولہ ميں جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ: اگر خاوند اپنى بيوى كو منع كرنا چاہتا تھا اور اسے طلاق دينے كا ارادہ نہ تھا تو قسم ٹوٹنے كى صورت ميں اس پر قسم كا كفارہ لازم آئيگا اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.

اور اگر وہ اس سے طلاق كا ارادہ ركھتا تھا تو بيوى كو طلاق ہو جائيگى.

اور اگر وہ بيوى كو آواز بلند كرنے سے منع كرنا چاہتا تھا اور بيوى پست آواز ميں روئى تو اس كى قسم نہيں ٹوٹےگى اور اس پر كچھ لازم نہيں آئيگا.

خاوند كو اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے اور طلاق كو اس كے موقع اور جگہ كے بغير استعمال نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ طلاق ڈرانے دھمكانے كے ليے اور عورت پر ظلم كرنے كے ليے نہيں بنائى گئى.

اور اسے طلاق كى قسم اٹھانے سے اجتناب كرنا چاہيے تا كہ اس كى ازدواجى زندگى تباہى اور ناكامى كى طرف نہ چل نكلے پھر اسے اس وقت ندامت كا سامنا كرنا پڑے كہ اس وقت نادم ہونے كا كوئى فائدہ ہى نہ ہو.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہمارے اور مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب